03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
(حج کا مکمل طریقہ قدم بہ قدم )حج کے پانچ دِن

8/ذِی الحجہ(حج کا پہلا دِن)

 حج و اِحرام کی تیاری:

8 / ذِی الحجہ سے پہلی رات کو حج شروع کرنے اَور منیٰ جانے کی تیاری مکمل کرلیجئے، سر کے بال سنواریئے، مونچھیں کاٹئے، ناخن کا ٹئے، زیر ناف اَور بغل کے بال صاف کیجئے۔( مناسک ملا علی قاری: صـ ۹۶)

اِحرام، نفل، نیت اَور تلبیہ:

8/ ذِی الحجہ کی صبح کو غسل یا وضو کرکے اِحرام باندھ لیجئے، جس کا طریقہ مردوں اَور عورتوں کیلئے عمرہ کے بیان میں گزرچکا۔

اَفضل یہ ہے کہ اإحرام باندھ کر مسجد ِ حرام میں جائیں اور تحیة المسجد کی نیت سے طواف کریں اَور طواف سے فارغ ہو کر اَگر مکروہ وَقت نہ ہو تو سرڈھک کر دو رکعت نفل اَدا کریں،(مناسک: صـ ۱۸۷)خواتین یہ نفل گھر پر پڑھیں۔(بخاری: ۱/ ۱۲۰، مسلم: ۱/ ۱۳۸، أبوداود: ۱/ ۹۱)

نفل سے فارغ ہوکر اپنا سرکھول دیجئے(ردالمحتار: ۳/ ۵۶۶،۵۶۸) اَور دِل سے نیت کیجئے۔ اَگر زبان سے کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں، درج ذیل الفاظ میں کرسکتے ہیں:

’’اَللّٰھُمَّ إنِّیْ أُرِیْدُ الْحَجَّ فَیَسِّرْ ہُ لِیْ وَتَقَبَّلْہُ مِنِّی۔‘‘(مناسک: صـ ۷۳)

ترجمہ: ’’اے اللہ! میں حج کی نیت کرتا /کرتی ہوں، اس کو میرے لئے آسان فرمادیجئے اَور قبول فرمایئے۔‘‘

اس کے بعد تین مرتبہ تلبیہ کہئے اَور دُعاء کیجئے(غنیة الناسک: صـ ۷۴)۔اب اِحرام کی پابندیاں شروع ہوگئیں۔(غنیة: صـ ۸۵) ان کی تفصیل عمرہ کے بیان میں گزر چکی،ان کا خیال رکھیے۔

منیٰ رَوانگی:

اِحرام بندھ چکا، اب آپ چار پانچ دِن کا ضرورِی سامان ساتھ لیجئے اَور منیٰ روانہ ہوجائیے۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۹۱) منیٰ جانے کے لیے معلّم کی طرف سے گاڑیوں کا انتظام بھی ہوتا ہے، مگر عموماً ہجوم زِیادہ ہونے کی وجہ سے گاڑیوں پر جانے میں وَقت بہت صرف ہوتا ہے اَور گاڑیوں پر بیٹھے بیٹھے لوگ تنگ ہوجاتے ہیں، منیٰ مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر ہے،(غنیة: صـ ۱۶۲) پیدل جانا بھی کچھ مشکل نہیں، اَگر ہمت کرسکیں تو بہتر یہی ہے کہ پیدل جائیں۔(مناسک: صـ ۲۱۳) راستہ بھر زِیادہ سے زِیادہ تلبیہ اَور ذکر جاری رکھیے۔( غنیة: صـ ۱۴۷)

منیٰ میں:

8/ ذِی الحجہ کو منٰی میں آپ کو کوئی خاص کام نہیں کرنا ہے، 8/ ذِی الحجہ کا دِن اَور اس کے بعد آنے والی رات یہاں گذارنا ہی بس ایک عمل ہے۔ نمازوں کے وَقت پر نمازیں باجماعت پڑھنے کا اہتمام کیجئے، دُعائیں کیجئے، حج کے مسائل کی کتابیں سنتے سناتے رہیے،علماء سے سیکھنے کا اہتمام کیجئے اَور دوسروں کوبھی اعمالِ خیر کی ترغیب دیجئے۔ 9/ذِی الحجہ کی فجر سے 13/ذِی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیرتشریق کہنا واجب ہے۔(رد المحتار: ۳/ ۷۱۔۷۵) مرد باآوازبلند اَور خواتین آہستہ کہنے کا اہتمام کریں۔(ردالمحتار: ۳/ ۶۲۹)

9/ ذِی الحجہ(حج کا دوسرادن)

عرفات رَوانگی:

9 / ذِی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد عرفات روانہ ہوجائیے،(رد المحتار: ۳/ ۵۹۲) عرفات منیٰ سے تقریباً چھ میل ہے، اللہ تعالیٰ کے بہت سے بند ے یہ فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں، اَگر آپ اس کی ہمت کرسکیں تو بہت بہتر اور اَگر ہمت نہ ہواوریہ اندیشہ ہوکہ تکان کی وجہ سے ذکر و عبادت میں نشاط اَور خوشدلی نہ رہے گی تو بہتر ہے کہ سواری پر جائیں۔ راستہ میں تلبیہ اہتمام سے پڑھتے جائیے۔

عرفات پہنچ کر:

اَگر آپ زَوال سے پہلے عرفات پہنچ گئے تو بقدر ضرورت زَوال تک آرام کرنے میں کچھ حرج نہیں۔(مناسک ملا علی قاری: صـ ۱۹۱) زَوال کے قریب اٹھ کر ممکن ہو تو غسل کیجئے ورنہ وضو کیجئے۔

وقوف ِعرفات:

زَوال ہوتے ہی وقوف شروع کردیجئے اَور غروب آفتاب تک جاری رکھیے،(مناسک: صـ ۲۰۴) حدود عرفات کا خاص خیال رکھیے، مسجد ِنمرہ کا کچھ حصہ حدود ِعرفات میں داخل نہیں،(رد المحتار: ۳/ ۵۹۲) ناواقف لوگوں کوبعض اوقات غلط فہمی ہوتی ہے اَور وہ اس حصے میں وقوف کرتے ہیں، اَگر کوئی شروع سے آخر تک اسی حصے میں رہا(مناسک: صـ ۲۰۴) تو اس سے حج کا رُکن اعظم ’’وقوفِ ِعرفہ‘‘ چھوٹ گیا اَور اَگر غروب سے پہلے حدودِ عرفات سے باہر نکل آیا تو دَم لازم ہوگا۔(غنیة الناسک: صـ ۱۶۰)

وقوفِ عرفہ کے دَوران تلبیہ پڑھنے، دُعا اَور ذکر مسنون

’’لَا إِلٰہَ اِلاَّ ﷲ، وَحْدَہٗ لاَشَریْکَ لَہ‘، لَہُ الْمُلْکُ، وَلَہُ الْحَمْدُ، یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ، وَھُوَ حَیٌّ لاَیَمُوْتُ، وَھُوَعَلیٰ کُلِّ شیئٍ قدیر۔‘‘

(کتاب الدعاء للطبرانی: صـ ۲۷۳) پڑھنے، اپنے لیے، والدین و مشایخ کے لیے، عزیز و اقارب، دوست احباب اور عامة المسلمین کے لیے مردوں اور زندوں کے لیے خوب استغفار کرنے میں وَقت گزاریئے۔ (مناسک ملا علی قاری: صـ ۱۹۱)

وقوف عرفات کا لازمی وقت مغرب تک ہے، مغرب ہو جانے کے بعد پھر جتنا جلدی ہو سکے عرفات سے روانہ ہونا سنت ہے، اس میں تاخیر مکروہ ہے، حتیٰ کہ اگر امامِ حج تاخیر کرنے لگے تو دوسرے لوگوں کو چاہیے کہ اس کو چھوڑ کر عرفات سے نکل کر مزدلفہ کی طرف روانہ ہو جائیں۔( الشامیة: ۳/ ۵۹۹)

ظہر و عصر کی نماز:

عرفات کی مسجد نمرہ میں ظہر و عصر کی نماز ظہر کے وَقت میں ایک ساتھ باجماعت اَدا کی جاتی ہے،(ہدایة: ۱/ ۲۴۴)مگر بعض اوقات ائمہ حضرات مسافر نہ ہونے کے باوجود قصر کرتے ہیں، یعنی دو دو رکعت پڑھتے ہیں جو حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں۔(مناسک ملا علی قاری: صـ ۱۹۵)اس لئے آپ ظہر کی نماز ظہر کے وَقت اَور عصر کی نماز عصر کے وَقت اذان و تکبیر کے ساتھ الگ باجماعت اَدا کیجئے۔

مزدَلفہ رَوانگی:

غروبِ آفتاب کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر تلبیہ کہتے ہوئے اَور ذکر کرتے ہوئے مزدَلفہ روانہ ہوجائیے۔(ہدایة: ۱/ ۲۴۷)

 نمازِ مغرب وعشاء:

مزدَلفہ میں مغرب و عشاء کی نماز ملاکر عشاء کے وَقت میں اَدا کیجئے۔(ہدایة: ۱/ ۲۴۷) دونوں نمازوں کے لیے صرف ایک اذان اَور ایک اقامت کہیے، پہلے مغرب کے فرض باجماعت اَدا کیجئے، پھر تکبیر تشریق اَور تلبیہ پڑھیے اَور اس کے بعد فوراً عشاء کے فرض اَدا کیجئے، پھر مغرب کی دوسنتیں، پھر عشاء کی دوسنتیں اَور وتر پڑھیے، نفل پڑھنے کا اِختیار ہے۔

مسئلہ: اَگرکوئی مزدَلفہ پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں مغرب کی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز نہ ہوگی، مزدَلفہ پہنچ کر اس کا اعادہ واجب ہوگا۔(غنیة الناسک: صـ ۱۶۳ ۔ ۱۴۹)

ذِکر و دُعاء:

یہ بڑی مبارک اَور فضیلت والی رات ہے، اس میں زِیادہ سے زِیادہ ذکر و تلاوت تلبیہ و دُعاء کا اہتمام کیجئے، ضرورت ہو تو کچھ آرام بھی کرلیجئے۔( غنیة الناسک: ۱۶۵)

10/ ذِی الحجہ(حج کا تیسرا دِن)

نمازِ فجر اَور وقوف:

صبح صادق ہونے پر اذان دیکر سنتیں پڑھ کر فجر کی نماز اوّل وَقت میں با جماعت اَدا کیجئے(مناسک ملا علی قاری: صـ ۲۲۰، ۲۲۱)اور پھر وقوف کیجئے، یعنی سورج نکلنے کے قریب تک تسبیح وتقدیس، تکبیر و تہلیل، حمد وثناء اَور دُعاء و استغفار میں مشغول رہیے۔

کنکریاں:

مستحب یہ ہے کہ جمرئہ عقبہ کی رَمی کے لیے چنے کے برابر سات کنکریاں یہیں مزدَلفہ سے اٹھالیجئے۔(مناسک ملا علی قاری: ۲۲۲)

منیٰ واپسی:

جب سورج نکلنے کا وَقت بالکل قریب آجائے تو منیٰ روانہ ہوجایئے،(مناسک ملا علی قاری: صـ ۲۲۱( منیٰ مزدَلفہ سے تین میل ہے۔(غنیة: صـ ۱۶۲) صبح کے ٹھنڈے وَقت میں یہ راستہ آسانی سے پیدل طے کیا جاسکتا ہے۔ شوق ومحبت اَور عظمت وہیبت کی کیفیت کے ساتھ تلبیہ پڑھتے جایئے۔

وَادی مُحسِّر:

راستہ میں ایک نشیبی جگہ ’’وَادی مُحسِّر‘‘ آئے گی،(مناسک ملا علی قاری: صـ ۲۲۱ ۔ ۲۲۲( یہاں ابرہہ کا لشکر ہلاک ہوا تھا، یہاں سر جھکائے، اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا استحضار کرتے اَور عذابِ الہٰی سے ڈرتے ہوئے تیزی سے نکل جایئے۔

جمرۂ عقبہ کی رَمی:

منیٰ پہنچ کر سب سے پہلے جمرئہ عقبہ کی رَمی کیجئے۔(مناسک ملاعلی قاری: صـ۲۲۳( آج یعنی 10/ذِی الحجہ کو صرف اسی ایک ہی جمرہ کی رَمی کی جاتی ہے، )غنیة: صـ ۱۷۱) جو زَوال سے پہلے کرنا اَفضل ہے۔(مناسک: صـ ۲۲۳ ۔ ۲۲۴( سات کنکریاں ہاتھ میں لے کر جایئے اَور ستون سے کچھ فاصلے پر اس طرح کھڑے ہوجایئے(مناسک: صـ ۲۲۳ ۔ ۲۲۴( کہ منیٰ آپ کے دائیں جانب اَور مکہ مکرمہ آپ کے بائیں جانب ہو۔(مناسک: صـ ۲۲۴(دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اَور شہادت کی انگلی سے پکڑکر ایک ایک کنکری ستون کے نیچے کے حصہ پر مارتے جایئے۔7(غنیة: ۱۷۰)کنکری کاستون کے گرد قائم احاطے میںگرجانا کافی ہے ستون کو لگنا ضرورِی نہیں۔(مناسک: صـ۲۴۵)کنکری پر’’بسم ﷲ ﷲ أکبر‘‘ کہیے1 اَور یادہوتو یہ دُعاء پڑھیے جو حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہما اور بعض دوسرے صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم سے منقول ہے:

’’اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ حَجًّا مَبْرُورًا وَّذَنْبًا مَّغْفُوْرًا‘‘ (کتاب الدعاء للطبرانی: صـ۲۷۶)

تلبیہ بند:

تلبیہ جو آپ اب تک برابر پڑھتے رہے، آج جمرۂ عقبہ کی رَمی کی ابتداء کرتے ہی اس کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے، اب تلبیہ بند کردیجئے اَور دوسرے اذکار سے زبان کو تر رکھیے۔(غینة الناسک: صـ ۱۷۰(

رَمی سے فارغ ہو کر دُعاء کے لیے نہ ٹھہریئے، دُعاء کئے بغیر اپنے خیمے میں چلے آیئے اَور قربانی کی تیاری کیجئے۔(بدائع الصنائع: صـ ۱۴۶)

قربانی:

آپ حج تمتع کر رہے ہیں، تمتع یا قران کرنے والے حاجی پر بطورِ شکر حج کی قربانی واجب ہے۔(مناسک ملا علی قاری: صـ ۲۲۶)

عید کی قربانی جو ہر صاحب نصاب مقیم پر واجب ہوتی ہے وہ اس کے علاوہ ہے، اَگر آپ مقیم ہیں اَور صاحب ِنصاب ہیں تو اس قربانی کا بھی اہتمام کیجئے، خواہ خود کیجئے، خواہ اپنے وطن میں کرایئے۔(غنیة: صـ ۱۷۲، مناسک: صـ ۲۲۶)

ہمارے اکابر رحمہم اللہ تعالیٰ کے فتویٰ کے مطابق منی مکہ مکرمہ سے الگ ایک مستقل  مقام تھا، لہٰذا اگر کسی حاجی کا 8 ذی الحجہ کی صبح تک مکہ مکرمہ میں 15 دن یا زیادہ قیام ہے تو وہ مقیم شمار ہوتا تھا اور اس پر قربانی لازمی ہوتی تھی۔ اس سے کم قیام ہے تو مسافر اور مسافر پر صاحب نصاب ہونے کے باوجود قربانی واجب نہیں۔

اب اکثر اہل علم کے نزدیک مکہ مکرمہ کی آبادی بعض اطراف سے منیٰ سے متصل ہو گئی ہے اور منیٰ مکہ مکرمہ کا حصہ بن گیا ہے، لہٰذا منیٰ کے 5 دنوں کو شامل کر کے اگر کل قیام 15  دن یا زیادہ رہا تو یہ مقیم ہوگا، اس سے کم رہا تو مسافر ہوگا۔

عام قربانی کی طرح حج کی اس قربانی کے لیے بھی تین دِن یعنی 10، 11 اور 12/ ذِی الحجہ مقرر ہیں۔(بدائع الصنائع: ۶/ ۲۸۵)

 12/ ذِی الحجہ کے غروب آفتاب تک دِن میں رات میں جب چاہیں کریں، گوپہلا دِن اَفضل ہے، مگر پہلے دِن ہجوم کی وجہ سے کافی دقت پیش آتی ہے، 11/ذِی الحجہ کوباآسانی قربانی کی جا سکتی ہے۔(ردالمحتار: ۹/  ۵۲۵)

اس قربانی میں بھی اِختیار ہے کہ چاہیں تو خود منیٰ کے ’’ذبح خانہ‘‘ میں جا کر اپنی پسند کا جانور خرید کر ذبح کریں اَور چاہیں تو منیٰ یا مکہ میں یا اپنے وطن میں اپنے کسی معتمد شخص کے ذریعہ کروائیں۔(بدائع: ۶/ ۲۸۵)

بینک کے ذریعہ قربانی:

بعض لوگ بینک کے ذریعہ یہ قربانی کرواتے ہیں،بینک والوں پر یہ اعتماد مشکل ہے کہ وہ حلق سے پہلے قربانی ضرور ذبح کر دیں گے،جبکہ قربانی حلق سے پہلے کرنا واجب ہے، اَگر ترتیب بدل گئی تو دَم لازِم ہو جاتا ہے، نیز یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بینک والے شرائط قربانی کا لحاظ نہیں رکھتے، معیوب جانوروں کی قربانی بھی کر دیتے ہیں، بلکہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ وہ سب لوگوں کی طرف سے قربانی نہیں کرتے، اگرچہ ان خبروں کی صداقت کی پوری تحقیق نہیں ہو سکی، مگر شک تو ضرور پیدا ہو گیا ہے۔ اس لئے حتی الامکان بینک کے ذریعہ قربانی کروانے سے اِجتناب کیا جائے۔ اَگر بامر مجبوری کروانا ہی پڑے تو حلق سے پہلے اس کا اطمینان کر لیا جائے کہ قربانی کا جانور ذبح ہو گیا ہے۔

حلق یا قصر:

اَگر آپ نے قربانی خود منیٰ میں کی ہے یاکسی سے کروائی ہے اَور قربانی ہونے کا مکمل یقین ہو چکا ہے تومرد پورے سر کے بال منڈائیں(غنیة: صـ ۱۷۳) یا پورے سر کے بال انگلی کے پورے سے کچھ زِیادہ مقدار میں کتروائیں، مگر حلق اَفضل ہے۔(بدائع: ۳/ ۱۰۱) (غنیة: صـ ۱۷۴)خواتین پورے سر کے بال مذکور مقدار میں کتروائیں، اَفضل یہی ہے(غنیة: صـ ۹۴) اَور چوتھائی سر کے بال کتروانا واجب ہے، اس لئے چوتھائی سر کے بال اتنی مقدار میں کٹ جانے کا اطمینان کرلیں، چوتھائی سے کم کٹے ہوں تو عورت اِحرام کی پابندیوں سے آزاد نہ ہوگی۔(مرقاة: ۵/ ۵۴۰، المکتبة الحبیبیة) حلق یا قصر کے بعد بیوی سے ہمبستری کے سوا اِحرام کی سب پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔(غنیة: صـ ۱۷۶)

طواف ِزِیارت:

حلق یا قصر سے فارغ ہو کر غسل کرنا چاہیں تو غسل کر کے ورنہ وضو کر کے سلے ہوئے کپڑے پہن کر یا اِحرام کی چادروں ہی میں پورے ذوق وشوق کے ساتھ مکہ روانہ ہوجائیے اَور طوافِ زِیارت کیجئے، واضح رہے کہ طواف با وضو کرنا واجب ہے، اَگر کسی نے پورا یا اکثر طواف ِ زِیارت بے وضو کر لیا تو دَم لازم ہو گا اَور اَگر نصف طواف سے کم طواف ِ زِیارت بے وضو کر لیا تو ہر چکر (جو بے وضو کیا) کے لیے بقدرِ صدقة الفطر صدقہ لازم ہو گا اَور اَگر پورا یا اکثر طواف ِ زِیارت حالت ِ جنابت یا حالت ِ حیض میں کر لیا تو بَدَنہ (یعنی ایک اونٹ یا ایک گائے) واجب ہو جائے گا، اَلبتہ اَگر وضو اَور غسل کر کے طواف دوبارہ کر لیا تو سب صورتوں میں دَم یا بَدَنہ ساقط ہو جائے گا۔

طوافِ زِیارت ’’وقوفِ عرفہ‘‘ کے بعد دوسرا اَہم رُکن ہے۔(ہندیة: ۱/ ۲۱۹، مکتبہ رشیدیة، تاتارخانیة: ۲/ ۲۳۷) اس کاوَقت 10/ذِی الحجہ کی صبح صادق سے شروع ہو جاتا ہے، مگر چونکہ طوافِ زِیارت رَمی اَور حلق یا قصر کے بعد سنت ہے، اس لیے طواف رَمی اَور حلق سے فارغ ہونے کے بعد کرے، اَگر پہلے کر لیا، تو خلاف ِ سنت کیا، طوافِ زِیارت کا آخری وَقت 12/ذِی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے۔(مناسک: صـ ۲۳۲، غنیة: صـ ۱۷۶)  اَگرچہ اَفضل یہی ہے کہ آج 10/ ذِی الحجہ ہی کو کر لیا جائے، اَگر 10/ ذِی الحجہ کو تکان او ر ہجوم کی وجہ سے مشکل ہو تو 11 یا 12/ ذِی الحجہ کو کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اس سے زیادہ بلا عذر تاخیر مکروہ ہے اور امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک اس صورت میں دَم لازِم ہوگا۔

طواف ِزِیارت کا طریقہ وہی ہے جو عمرہ کے بیان میں تفصیل سے گزر چکا، چونکہ اس طواف کے بعد آپ کو سعی بھی کرنی ہے، اس لئے اس میں پہلے تین چکروں میں رَمل کیجئے۔(بدائع: ۳/ ۱۲۰) اَگر سلے ہوئے کپڑے پہنے ہوں تو اِضطباع (دایاں کندھا کھلا رکھنا) نہیں ہوگا، اِحرام کی چادروں میں طواف کر رہے ہوں تو اِضطباع بھی کیجئے۔

سعی:

طواف اَور اس کے متعلقات یعنی دورکعت نمازِ طواف،(مناسک: صـ ۱۵۵ ۔ ۲۳۲، بدائع: ۳/  ۱۲۳)ملتزم پر دُعاء،(غنیة: صـ ۱۲۲)

 زَمزم پینے اَور دُعاء مانگنے سے فارغ ہو کر پھر حجرِ اَسود کا اِستلام یا اِشارہ کر کے صفا ومروہ کی سعی کیجئے۔(غنیة: صـ ۱۷۷، مناسک: صـ ۲۳۶) سعی کا وہی طریقہ ہے جو عمرہ کی سعی کے بیان میں گزر چکا۔

سعی سے فارغ ہو کر منیٰ واپس آجایئے او ر رات منیٰ ہی میں گزاریے۔(غنیة: صـ ۱۷۸ ۔ ۱۷۹، مناسک: ۲۳۴ ۔ ۲۳۶)

مسئلہ: اَگرچہ اَفضل یہی ہے کہ سعی طوافِ زِیارت کے بعد ہی کی جائے، لیکن اَگر کوئی طوافِ قدوم کے بعد سعی کرلے یا عمرہ سے فارغ ہو کر کوئی نفل طواف کرنے کے بعد سعی کر لے تو بھی جائز ہے، اب طوافِ زِیارت کے بعد نہ سعی کرے گا اَور نہ اس طواف میں رَمل و اِضطباع کرے گا، اَلبتہ اَیسے طواف ِ قدوم یا نفلی طواف میں رَمل و اِضطباع کرنا چاہیے، اَگر قصداً یا بھول کر نہیں کیا تھا تو بھی اب طواف ِ زِیارت میں رَمل و اِضطباع نہ کرے۔

11/ذِی الحجہ(حج کاچو تھا دِن)

جمرات کی رَمی:

11/ذِی الحجہ کو زَوال کے بعد تینوں جمرات، جمرئہ اولیٰ، جمرئہ وسطیٰ اَور جمرئہ عقبہ پر بالترتیب سات سات کنکریاں ماریئے۔(بدائع : ۳/ ۱۴۹) یہ رَمی زَوال کے بعد غروب ِآفتاب سے پہلے سنت ہے،(ردالمحتار: ۳/ ۶۱۹، مناسک ملا علی قاری: صـ ۲۴۰) مگر ہجوم کی وجہ سے بوڑھوں، بیماروں اَور خواتین کو جان جانے یا شدید مشقت کا اندیشہ ہو تورات میں بھی رَمی کر سکتے ہیں، بلکہ جان جانے کے خطرہ سے جوانوں کے لیے بھی تاخیر کرنے میں کوئی کراہت نہیں۔(مناسک: صـ ۲۳۷)

دُعاء:

جمرۂ اولیٰ کی رَمی سے فارغ ہو کر ذرا آگے بڑھ کر ایک طرف ہو کر قبلہ رو کھڑے ہو کر خوب خوب دُعاء مانگیے، جمرۂ وسطیٰ کی رَمی سے فارغ ہو کر بھی اسی طرح دعا کیجئے، اس موقع پر قبولیت ِدُعا کی خاص امید ہے، مگر جمرۂ عقبہ پر رَمی کے بعد دُعاء نہیں ہے، دُعاء کیے بغیر اپنے مقام پر واپس آجایئے۔(بدائع الصنائع: ۳/ ۱۴۹، مناسک ملا علی قاری: صـ ۲۴۲)

12/ ذِی الحجہ(حج کا پانچواں دِن)

جمرات کی رَمی:

زَوال کے بعد غروبِ آفتاب سے پہلے تینوں جمرات پر سات سات کنکریاں ماریے، اس میں وہی تفصیل پیشِ نظر رکھیے جو اوپر 11/ ذِی الحجہ کے بیان میں گزری۔(بدائع الصنائع: ۳/ ۱۴۹)

قیام کا اِختیار اَور رَمی:

12/ذِی الحجہ کی رَمی کے بعدآپ کو اِختیار ہے،خواہ منیٰ میں قیام کریں یا مکہ مکرمہ واپس آجائیں۔(مناسک ملا علی قاری: صـ ۲۴۳، غنیة الناسک: صـ ۱۸۴) اَگرچہ اَفضل یہی ہے کہ قیام کریں اَور 13/ذِی الحجہ کی رَمی کر کے مکہ واپس آئیں، لیکن اَگر آپ کو 13/ ذِی الحجہ کی صبح منیٰ ہی میں ہوگئی تو یہ رَمی بھی واجب ہوجائے گی،(غنیة الناسک: ۱۸۴، مناسک ملا علی قاری: صـ ۲۴۴) زَوال کے بعد رَمی کر کے واپس آنا ہوگا۔

مکہ معظمہ کا قیام:

حج سے فارغ ہو کر اَگر کچھ روز مکہ مکرمہ میں قیام کا موقع مل جائے تو اسے بہت بڑی نعمت جانئے اَور اس کی قدر کیجئے۔(غنیة: صـ ۱۸۹) دِن رات میں جس قدر ہوسکے نفلی طواف کیجئے، اپنے والدین کی طرف سے، اپنے اساتذہ اَور خاص محبین ومحسنین کی طرف سے۔(غنیة: صـ ۱۳۷)

جس بیت ﷲ کی طرف منہ کر کے غائبانہ نمازیں اب تک پڑھتے رہے اَور آیندہ بھی پڑھتے رہیں گے،اس کے بالکل سامنے اَور اس کی دیواروں کے نیچے کھڑے ہو کر نمازیں پڑھیے، عمر بھر کی حسرت نکال لیجئے۔ کسی کوتکلیف پہنچائے بغیر ممکن ہو تو حجرِ اَسود کو بوسے دیجئے،(ردالمحتار: ۳/ ۵۷۷) ملتزم سے چمٹ کر آنسو بہا بہا کر اپنے رب سے دُنیا وآخرت کی کامیابی، امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی، مجاہدین کی فتح اَور پورے عالم میں غلبۂ اِسلام کی دُعائیں مانگیے۔ دوسروں کو بھی جہاد واعمال خیر کی دعوت دیجئے، مسجد ِحرام میں بیٹھ کر وقتاً فوقتاً ﷲ کے اس مقدس گھر کو عظمت ومحبت کی نظروں سے دیکھئے۔(غنیة: صـ ۱۳۸)

یہ سب وہ بہاریں ہیں جو مکہ معظمہ سے چلے جانے کے بعد آپ کو نصیب نہ ہوسکیں گی، اس لئے اس موقع کو غنیمت سمجھئے اَور ﷲ تعالیٰ کی رحمتوں وبرکتوں کو جس قدر ہو سکے سمیٹنے کی کوشش کیجئے۔

طوافِ وداع:

اﷲ تعالیٰ کا شکر اَدا کیجئے کہ اس نے آپ کا حج مکمل کرادیا، اب حج کے اعمال میں سے کوئی عمل باقی نہیں رہا، بس اتنا عمل باقی ہے کہ جب آپ مکہ معظمہ سے رخصت ہونے لگیں تو ایک رخصتی طواف کر کے جائیں۔اسے طواف ِوداع کہتے ہیں اَور یہ بیرونی حاجیوں کے لیے واجب ہے(مناسک ملا علی قاری: صـ ۲۵۲، غنیة: صـ ۱۹۰) اَور اس کا طریقہ عام نفل طواف کی طرح ہے، نہ اس میں اِضطباع و رَمل ہے اَور نہ اس کے بعد سعی ہے۔(مناسک: صـ ۲۵۴)

اَگر کسی نے طواف زِیارت کے بعد کوئی نفل طواف کرلیا اَور طوافِ وداع کئے بغیر ہی وہ مکہ معظمہ سے رخصت ہوگیا تو یہ نفلی طواف ہی طواف ِوداع کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔(غنیة الناسک: صـ ۱۹۰، مناسک: صـ ۲۵۲) تاہم بہتریہی ہے کہ رَوانگی سے پہلے وداع اَور رخصت ہونے کی نیت سے مستقل طواف کیا جائے۔(مناسک: صـ ۲۵۲، غنیة: صـ ۱۹۰)

طوافِ وداع کے وَقت فطری طور پر آپ کو یہ خیال آئے گا کہ بیت ﷲ جو ﷲ تعالیٰ کی خاص تجلی گاہ ہے اَور عمر بھر کی تمناؤں کے بعد یہاں پہنچنا نصیب ہوا ہے، اب اس سے رخصت ہو رہے ہیں، آیندہ نہ معلوم یہ سعادت میسر آئے گی یا نہیں،بس اسی دلسوزی اَور حسرت کے ساتھ طواف کیجئے، اَگر مکروہ وَقت نہ ہو تو دوگانہ اَدا کیجئے۔

طواف سے فارغ ہو کر جی بھر کے زَمزم پیجئے، پھر ملتزم پر آئیے اورکسی کو تکلیف  پہنچائے بغیر موقع ہو تو وداع اَور رخصت ہی کی نیت سے اس سے لپٹ لپٹ کر خوب رویئے، آہ وزاری کیجئے، اپنے رب سے حج کی مقبولیت مانگیے، مغفرت مانگیے،ﷲ کی رضا مانگیے، اپنے لئے اپنے والدین، اساتذہ، مشایخ اَور پوری اُمت کے لیے مانگیے،بلک بلک کر مانگیے، مسجد ِحرام و بیت ﷲ کے آداب وحقوق کے بارے میں جو کوتاہیاں ہوئیں ان کی معافی مانگیے اَور سنت کے مطابق مسجد ِحرام سے نکلیے۔(مناسک: صـ ۲۵۴ ۔ ۲۵۵، غنیة: صـ ۱۹۲، فتاویٰ تاتارخانیة: ۲/ ۴۷۰)

مفتی محمد 

رئیس دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی