021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عقدِ مضاربت کی ایک صورت کا حکم
84384مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

 ایک شخص جس کا نام حافظ ہے، وہ آج سے تقریباً چھ سال پہلے قاری  صاحب کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بیکولائٹ (بجلی کے بٹنوں) کا کام کرتا ہوں ،آپ مجھے کچھ پیسے دے  دیں ، میں آپ کو اس پر نفع دوں گا ،قاری صاحب نے علماء کرام سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ نفع فی صد کے اعتبار سے طے ہونا ضروری ہے ،تواس نے قاری صاحب سے اس طرح طے کیا کہ اخراجات نکال کر کل منافع میں سے نوے فیصد آپ کا اور دس فیصد میرا ہوگا ،معاملات طے ہوگئے، چند ماہ وہ مسلسل منافع دیتا رہا ،قاری صاحب کے چند متعلقین کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی رقم کاروبار میں انویسٹ کر دی ،ان کو بھی اسی طرح منافع ملتا رھا، جب انویسٹمنٹ  بڑھی تو اس شخص نے کاروبار بھی بڑھا دیا اور بیکولائٹ کے ساتھ ڈائیوں ( بٹن بنانے کا سانچہ) کا کام بھی شروع کردیا ،اس میں انویسٹمنٹ بھی زیادہ  لگتاہے اور فی صد کے اعتبار سے منافع بھی زیادہ  ملتاہے ،پھر تقریباً ڈیڑھ سال پہلے اس نے مشینوں کا کام شروع کیا ،اس میں بھی انویسٹمنٹ  زیادہ لگتاہے ،اب  75 فی صد منافع انویسٹر کو دیتا ہے اور25 فی صد خود رکھتا ہے اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ کاروبار شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ذکرکردہ صورت عقدِ مضاربت  کی ہے جس میں  رب المال کی طرف سے مال اور مضارب کی طرف سے عمل ہوتاہے ،عقدِ مضاربت  میں منافع فیصدی حصہ کے   طور پر متعین کرنا ضروری  ہوتا ہے ،مذکورہ صورت  میں بھی ایک طرف مال اور دوسری طرف عمل ہے اور نفع میں  بھی حصہ  فیصدی طور پر متعین ہے ،لہذا یہ صورت جائز ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 645):
كتاب المضاربة.
(هي) لغة مفاعلة من الضرب في الأرض وهو السير فيها وشرعا (عقد شركة في الربح بمال من جانب) رب المال (وعمل من جانب) المضارب.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 310)
(كتاب المضاربة) وجه المناسبة بين الكتابين وجود معنى نقل المال في الحوالة والمضاربة في الجملة (هي) لغة مفاعلة من الضرب في الأرض وهو السير فيها سمي هذا العقد بها لأن المضارب يسير في الأرض غالبا لطلب الربح، وشرعا (عقد شركة في الربح بمال من رجل وعمل من آخر وركنها الإيجاب) بأن يقول رب المال دفعت هذا المال إليك مضاربة أو معاملة أو خذ هذا المال إليك واعمل به على أن ما رزق الله تعالى بيننا نصفان أو نحو ذلك من ألفاظ تثبت بها المضاربة (والقبول) بأن يقول المضارب قبلت ونحوه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 648):
(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد. ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة
 (قوله: في الربح) كما إذا شرط له نصف الربح أو ثلثه بأو الترديدية س (قوله فيه) كما لو شرط لأحدهما دراهم مسماة.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 311):
(وشرطها ستة) ...الخامس (كون نصيب المضارب من الربح معلوما عنده) أي عند العقد لأن الربح هو المعقود عليه وجهالته توجب فساد العقد (و) السادس (شيوع الربح بينهما بحيث لا يستحق أحدهما دراهم مسماة) لقطعه الشركة في الربح لاحتمال أن لا يحصل من الربح إلا قدر ما شرط له وإذا انتفى الشركة في الربح لا تتحقق المضاربة لأنها جوزت بخلاف القياس بالنص بطريق الشركة في الربح فيقتصر على مورد النص .

عبدالعلی

دارالافتا ء جامعۃالرشید،کراچی

22/ محرم الحرام /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالعلی بن عبدالمتین

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے