84485 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
میں آن لائن واچز (گھڑیاں )سیل کرتاہوں ،کیامیں اپنی ویب سائٹ اور آن لائن اسٹور پر ہول سیلر سے پکچرز لے کر اسٹور پر لگا کر بیچ سکتاہوں، جب کہ وہ میں نے خریدی ہوئی نہیں ہوتی، آرڈر آنے کے بعد میں وہ واچز(گھڑیاں ) پرچیز (خریدتا)کرتاہوں اور پھر ڈیلیور کرتاہوں ،کچھ کسٹمرز ڈیلیوری پر اور کچھ آن لائن پیمنٹ کرتے ہیں ،کیامیرے لئے یہ جائز ہوگا؟ اگر نہیں تو کیسے جائز ہوسکتاہے؟
تنقیح:سائل نے بتایا کہ وہ شاپی فائی (Shopify) بزنس پلیٹ فارم پر آن لائن ڈراپ شپنگ کا کام کرتاہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شریعت میں کسی چیز کو فروخت کرنے کا اصول یہ ہے کہ وہ چیز وہ عاقدین (سیلر اور کسٹمر)کے درمیان معاملہ طے پاتے وقت بائع(سیلر) کی ملکیت میں ہو،معلوم ومتعین ہو اور قابل نقل وحمل ہونے کی صورت میں بائع (سیلر)کے قبضہ میں بھی ہو ،چنانچہ اگر مبیع (بیچی جانے والی پروڈکٹ) بیچنے والے کی ملکیت میں نہ ہو بلکہ آن لائن اسٹور پر محض اس کی تصویر دکھلا کر وہ چیز فروخت کی جائے اور پھر اسے کسی ہول سیلرسے خرید کرکسٹمر کو ڈیلیور کر دی جائے تو یہ صورت بائع (سیلر)کے قبضہ میں مبیع (بیچی جانے والی پروڈکٹ) نہ ہونے کی وجہ سے شرعا جائز نہیں اور ایسی بیع حدیث کی رو سے ممنوع ہے۔، البتہ اگر اس چیز کو اپنے قبضے میں لانے کے بعد فروخت کیا جائے تو یہ عقد جائز ہوگا۔
شاپی فائی ڈراپ شپنگ کے ماڈل میں اگر کسٹمرسے آرڈر لینے کو حتمی بیع(confirm contract) سمجھا جاتا ہو(جیسا کہ عموما ہوتا ہے) تو چونکہ اس مرحلے میں فروخت کرنے سے قبل فروخت کی جانے والی چیز سیلر نے نہیں خریدی ہوتی ہےاور نہ وہ اس کا مالک ہوتا ہے، لہذا اس کے لیے اس کو آگے بیچنا بھی شرعا جائز نہیں ۔
مذکورہ معاملہ کو جائز بنانے کے لیے متبادل کے طور پر دوطریقے اختیار کرسکتے ہیں:
1: آپ (سیلر) بیع (کنٹریکٹ آف سیل )کے بجائےوعدہ بیع(پرامیس ٹو سیل) کرلے جس کی صورت یہ ہےکہ آپ خریدار کے ساتھ وعدہ بیع کرلے یایہ کہ آپ اپنے ویب سائٹ یا آن لائن اسٹور پر چیزوں کی تصاویر اپلوڈ کرتے وقت ایک مختصر سا جملہ اعلان کے طور پر لکھ دے کہ" کسٹمر کا آرڈر قبول کرنا فی الوقت پروڈکٹ بیچنے کا محض وعدہ ہے ، کوئی حتمی بیع نہیں ہے " چنانچہ آرڈر لینے کے بعد پہلے آپ وہ پروڈکٹ ہول سیلرسے خرید کراس پر خود قبضہ کرے،پھرمال (واچز) پہنچنے پر عملا عقد(Reciprocal Contract )مکمل ہو جائے گی ۔
2: آپ ہول سیلر کے ساتھ عقد وکالہ(کنٹریکٹ آف ایجنسی) کرے،جس کی صورت یہ ہے کہ آپ ہول سیلر کے وکیل(ایجنٹ) کی حیثیت سے چیز بیچےاور اس کےبدلے میں وہ آپ ہول سیلر سے طے شدہ وکالہ فیس(کمیشن) لیتا رہے اور فیس (کمیشن )یوں طے کی جا سکتی ہے کہ جتنے کی فروختگی ہوگی اس کا اتنے فیصد میری فیس (کمیشن) ہوگی یا یوں بھی طے کی جاسکتی ہے کہ فلاں پروڈکٹ کی فروختگی پر اتنے روپے ہوگی۔
نیز اس طرح کے معاملات میں درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے:
۱۔ جن چیزوں کی تصاویر کی آن لائن اسٹور اور ویب سائٹ پر جو تفصیلات لکھی گئی ہوں وہ فروخت کی جانی والی چیزوں کی صفات (qualities)کے عین مطابق ہونی چاہیے۔
۲۔جو چیزیں فروخت کیے جائیں ان کی خرید وفروخت شریعت اور قانون کی رو سے منع نہ ہو، یعنی ان کی اجازت ہو۔
۳۔چیزوں کی قیمتیں اور ایجنٹ کاکمیشن سب متعین اورمعلوم ہو،کسی قسم کا ابہام نہ ہواور ایجنٹ کے غفلت کے علاوہ تمام رسک ہول سیلر کا طے ہو۔(ماخوذ از تبویب: 82806 )
حوالہ جات
مصنف ابن أبي شيبة (4/ 311):
(20499) حدثنا أبو بكر قال: حدثنا هشيم، عن أبي بشر، عن يوسف بن ماهك، عن حكيم بن حزام، قال: قلت: يا رسول الله، الرجل يأتيني ويسألني البيع ليس عندي، أبيعه منه، أبتاعه له من السوق؟ قال: فقال: «لا تبع ما ليس عندك .
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (11/ 116):
( ومنها ) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد ، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة ، وهذا بيع ما ليس عنده { ، ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع ما ليس عند الإنسان ، ورخص في السلم }.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 180):
(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع فيه غرر» ، وسواء باعه من غير بائعه، أو من بائعه؛ لأن النهي مطلق لا يوجب الفصل بين البيع من غير بائعه وبين البيع من بائعه، وكذا معنى الغرر لا يفصل بينهما فلا يصح الثاني، والأول على حاله.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 156):
(ومنها) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة. فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولا جهالة لا تفضي إلى المنازعة لا يفسد؛ لأن الجهالة إذا كانت مفضية إلى المنازعة كانت مانعة من التسليم والتسلم فلا يحصل مقصود البيع، وإذا لم تكن مفضية إلى المنازعة لا تمنع من ذلك؛ فيحصل المقصود.
الفتاوى الهندية (3/ 13):
وإذا عرفت المبيع والثمن فنقول من حكم المبيع إذا كان منقولا أن لا يجوز بيعه قبل القبض وكل جواب عرفته في المشتري فهو الجواب في الأجرة إذا كانت الأجرة عينا وقد شرط تعجيلها لا يجوز بيعها قبل القبض وكذا بدل الصلح عن الدين إذا كان عينا لا يجوز بيعه قبل القبض.
فقہ البیوع، المجلد الثانی، ص )1103/2(:
الوعد او المواعدۃ بالبیع لیس بیعاً، ولا یترتب علیہ آثار البیع من نقل ملکیۃ المبیع ولا وجوب الثمن.
عبدالعلی
دارالافتا ء جامعۃالرشید،کراچی
01/ صفر/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالعلی بن عبدالمتین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |