84597 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | دلال اور ایجنٹ کے احکام |
سوال
سوال یہ ہےکہ میں ایک کال سینٹر میں جاب کر رہا تھا ،لیکن اس میں کچھ ایسی چیز یں تھی ،جس کی وجہ سے مجھے اس کی آمدن حرام ہونے کا ڈر تھا۔ سب سےپہلے تو کال سینٹر کا آپ کو بتا دو ں ،یہ ایک کمپنی کے ساتھ کنٹریکٹ کرتے ہیں ،جس میں ان کی سپیسفک (خاص )چیزوں کو بیچنا ہوتا ہے ،جیسے کے انشورنس جو کہ اسلام میں حرام ہے ۔لیکن اس کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی انسٹالمینٹس اور لون پر بیچتے ہیں جیسے سولر پینل ،لیکن جس سیکٹر میں میں کام کر رہا تھا ،وہ ایجوکیشن ریلیٹڈ ہے ،مطلب ہمیں لوگوں کو یونیورسٹیوں میں ایڈمیشن دینا ہوتا تھا ،اگر وہ ایڈمیشن لیتے تو ہمیں کمیشن ملتا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ مجھے جو انکم ملے گی کمپنی کی طرف سے وہ ہے تو ایجوکیشن بیچنے کی ،لیکن جو ٹوٹل ریونیو (آمدنی)ہے کمپنی کا اس میں انشورنس والے لوگوں کے پیسے بھی انوالو (شامل)ہوں گے ،مطلب اس سے میری انکم حلال رہے گی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح ہو کہ آج کل کال سنٹر کا کام عام طور پر کمیشن ایجنٹ والا ہے،کال سینٹر والے بیرون ملک میں مختلف کمپنیوں اور اداروں کی اشیاء کی تشہیر کرکے فروخت کرتے ہیں،اور کمپنی وہ اشیاء گاہک کو پہنچادیتی ہے،لہذا اگر یہ کام جائز مصنوعات کا ہو تو کمیشن پر اس طرح کام کرنا جائز ہے،چونکہ آپ کا کا م ایجوکیشن سےریلیٹڈ ہے اور انشورنس کے کام سے آپ کا کوئی واسطہ نہیں ہےاور کمپنی کو انشورنس کے کام کے علاوہ اور پروڈکٹس سے بھی پیسے آمدنی آرہی ہے تو اگر اکثرآمدنی دوسرے پروڈکٹس سے آرہی ہے تو اس صورت میں آپ کی آمدنی حلال ہے۔لیکن اگر اکثرآمدنی انشورنس کے کام سے آرہی ہےتو اس صورت میں آپ کی آمدنی حلال نہ ہو گی۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.
عطاء الر حمٰن
دارالافتاء،جامعۃالرشید کراچی
02/صفر /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عطاء الرحمن بن یوسف خان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |