84542 | زکوة کابیان | سونا،چاندی اور زیورات میں زکوة کے احکام |
سوال
ایک صاحب کا دعوی ہے کہ وہ خود مستحق زکوٰۃ ہے اس لئے وہ زکوٰۃ کی رقم وصول بھی کرلیتا ہے، البتہ ان کی بیوی کے زیورات کی مقدار اتنی ہے کہ ان پر سالانہ زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور ان صاحب نے اپنی بیوی پر واجب ہونے والی زکوٰۃ کی ادائیگی اپنے ذمہ لے رکھی ہے، اب جو رقم وہ زکوٰۃ کی لیتا ہےاسی کو آگے اپنی بیوی کی طرف سے زکوٰۃ کے طور پر ادا کردیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیاان صاحب کا یہ فعل درست ہے؟ اور اس حال میں کہ وہ خود مستحق زکوٰۃ ہو ،پھر بھی بیوی کی زکوٰۃ کی ادائیگی اپنے ذمہ لینا کیسا ہے؟ ان صاحب کا کہنا ہے کہ میں اپنے حالات کا اظہار اپنی بیوی سے نہیں کرنا چاہتا ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
شریعتِ مطہرہ میں جب کوئی شخص کسی چیز کا مالک بن جائے تووہ اپنی مملوکہ چیز میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتاہے،چونکہ مذکورہ شخص مستحق ِ زکوٰۃ (جیسا کہ سوال میں ہے)ہے ،لہذا ملنی والی زکوٰۃ کے رقم کا وہ ما لک ہوگا اور ملکیت میں آنے کے بعد وہ اس میں تصرف کرنے کا حق رکھتاہے ،اس لئے اگروہ اسی رقم سے اپنی بیوی کی اجازت سے اس کی طرف سے زکوٰۃ ادا کرتاہے تو زکوٰۃ ادا ہوجائیگی ،چونکہ زیورات کی مالکن بیوی ہے ،اس لئے اصل ذمہ داری بیوی پر ہے ،لیکن شوہر اگر اداکرتاہے تو یہ اپنی بیوی پر احسان کرتاہے۔
کسی کی زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری لینے کا تعلق اس کے رضامندی سے ہے ،لہذا اگر وہ اپنی مرضی سے بیوی کی زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری بطورِ وکیل لیتاہے ،تواس کےلئے یہ ذمہ داری لینا جائز ہے،چونکہ یہ بطورِ وکیل بیوی کی طرف سے زکوٰۃ اد اکرتا ہے اس لئے یہ بیوی کے ذمہ قرض ہوگا ،لیکن اگر شوہر اداکرنے کے بعد معاف کرنا چاہے تو معاف کرسکتا ہے۔نیز اس کا اپنی بیوی کی زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری لینے سے وہ زیورات کا مالک نہیں بنے گااورنہ اس وجہ سے اس کے مستحق ِ زکوٰۃ ہونے پر کچھ فرق نہیں پڑےگا۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 171):
إذا وكل في أداء الزكاة أجزأته النية عند الدفع إلى الوكيل فإن لم ينو عند التوكيل ونوى عند دفع الوكيل جاز كذا في الجوهرة النيرة وتعتبر نية الموكل في الزكاة دون الوكيل كذا في معراج الدراية فلو دفع الزكاة إلى رجل وأمره أن يدفع إلى الفقراء فدفع، ولم ينو عند الدفع جاز.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 53):
أن الزكاة عبادة عندنا والعبادة لا تتأدى إلا باختيار من عليه إما بمباشرته بنفسه، أو بأمره، أو إنابته غيره فيقوم النائب مقامه فيصير مؤديا بيد النائب.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 268):
(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما) كما لو دفع بلا نية ثم نوى والمال قائم في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل ثم دفع الوكيل بلا نية أو دفعها لذمي ليدفعها لأن المعتبر للفقراء جاز نية الأمر ولذا لو قال هذا تطوع أو عن كفارتي ثم نواه عن الزكاة قبل دفع الوكيل صح.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 263):
وأما بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل فنقول وبالله التوفيق حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به إلا إذا تعلق به حق الغير فيمنع عن التصرف من غير رضا صاحب الحق وغير المالك لا يكون له التصرف في ملكه من غير إذنه ورضاه إلا لضرورة.
الفتاوى الهندية (3/ 252):
أما تعريفها فقيل هي ضم الذمة إلى الذمة في المطالبة وقيل في الدين، والأول أصح كذا في الهداية، وأما ركنها فالإيجاب، والقبول عند أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أولا حتى إن الكفالة لا تتم بالكفيل وحده سواء كفل بالمال أو بالنفس ما لم يوجد قبول المكفول له أو قبول أجنبي عنه في مجلس العقد أو خطاب المكفول له أو خطاب أجنبي عنه بأن قال الطالب لآخر اكفل بنفس فلان لي فقال كفلت أو قال رجل أجنبي لغيره اكفل بنفس فلان أو بمال عن فلان لفلان فيقول ذلك الغير كفلت تصح الكفالة وتقف على ما وراء المجلس على إجازة المكفول له ... ثم رجع أبو يوسف - رحمه الله تعالى - وقال الكفالة تتم بالكفيل وحده وجد القبول أو الخطاب من غيره أو لم يوجد كذا في المحيط واختلفوا على قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - فقيل عنده تجوز بوصف التوقف حتى لو رضي بها الطالب تنفذ وإلا تبطل وقيل هي جائزة عنده بوصف النفاذ ورضا الطالب ليس بشرط عنده، وهو الأصح كذا في الكافي، وهو الأظهر كذا في فتح القدير وفي البزازية وعليه الفتوى كذا في النهر الفائق وهكذا في البحر الرائق.
عبدالعلی
دارالافتا ء جامعۃالرشید،کراچی
04/ صفر /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالعلی بن عبدالمتین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |