84573 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
سابقہ فتوی میں جلدی کی وجہ سے کچھ تفصیل رہ گئی تھی ۔بعد میں دارالافتاء میں سوال کیا گیا ،جس پر دوبارہ سوال لکھنے کا کہا گیا ۔
گھر میں چھوٹی موٹی باتوں پر تھوڑی بہت ناراضگی تو ہوتی رہتی ہے، لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ یہ ناراضگی شدید ہو جاتی ہے۔جن میں دوسروں کے سامنے گھر کی باتیں کرنا جس سے بیوی کی تضحیک ہو ، اسی طرح میرے خاندان والوں کے بارے میں کوئی احسان جتلانا خصوصا والدین کے بارے میں۔
ایک دن میرے شوہر نے مجھے کہا کہ پرانے دودھ سے بڑے بیٹے کے لیے دہی بنادو ، وہ مدرسے سے شدید بیماری کی وجہ سے گھر آیا تھا ،تو میں نے کہا کہ پرانے دودھ سے چائے بنا لوں گی، اس کے لیے میں پرانے دودھ سے دہی نہیں بناتی ، اسی دوران میں نے کہ دیا جس نے پینی ہوگی چائے پی لے گا ۔اس پر میرے شوہر نے میرے بھائی کے سامنے میری شکایات شروع کر دی ، کہ تمہاری بہن میرا خیال نہیں رکھتی ،مجھےبرا بھلا بھی کہتی ہے، مجھ سے طلاق بھی مانگی تھی اس نے، آپ کی باقی بہنیں اس سے چھوٹی ہیں ، لیکن اپنی خاوند کی کتنی قدر کرتی ہیں ،میں خود کھانا کھاتا ہوں ،برتن دھوتا ہوں ،جب یہ بیمار ہےتو جو لوگ ان کی تیماداری کے لیے آتے ہیں ،ان کے لیے کیوں کھانا بناتی ہیں ،اور خدمت کرتی ہے ،حالانکہ یہ کام کاج اس کے لیے منع ہیں ۔ میرے کمر کی ہڈی میں ایک فریکچر ہے ، بڑےبیٹے کے بیماری کی وجہ سے مجھے چیک اپ کے لیے وہ مجھے بروقت لے کر نہیں گئے ، میری بہن آئی تھی میں، میں ان کے ساتھ چلی گئی ، میں نے اپنے شوہر کو بتایا کہ آپ مجھے لے کر نہیں گئے میں ان کے ساتھ چلی گئی ،جس پر شوہر نے کہا کہ میں جب آپ کے ماں باپ کو لے جاسکتا ہوں تو آپ کو بھی لے جاسکتا ہوں ۔ اسی دوران ایک اور بات ہوئی جو معمول کے حساب سے بڑی یا ناراضگی والی نہیں تھی، لیکن دوسری باتوں سے مل کر وہ بھی تذکرہ میں آگئی ۔جس کا تذکرہ مسئلہ نمبر ۲ میں آرہا ہے۔
ان باتوں سے میں ناراض ہوئی شوہر سے اور تقریبا ۱۲ دن ناراض رہی ۔ جس وقت وہ منا رہے تھے اس وقت میں ناراضگی کی انتہاء پے تھی ، میں نے انہیں کہا کہ آپ کہ دیں اگر میں اپنے خاندان والوں کی طرف گئی یا وہ ہماری طرف آئے تو تمہیں طلاق دیتا ہوں ۔اس پر میرے شوہر نے پشتو میں یہ الفاظ ادا کیے،(دو اور تین کے اختلاف کا تذکرہ سابقہ استفتاء میں ہو چکا ہے)
"دہ نہ پستہ بیا تا تا داشانتے سہ خبرہ ما اوکڑہ نو ذہ تالا طلاق راکوما"
شوہر کا مقصد بیوی کو راضی کرنا تھا ،وہ کہ رہے تھے کہ جس طرح کی باتوں پر تم ناراض ہوئی ہو ، اپنی خدمت نہ کرنے پر دوسروں کے سامنے گلے شکوے کرنا یا دوسروں کے بیویوں کی مثالیں دینا ، یا بیوی کے خاندان کے بارے میں احسان جتلانا جوبیوی کی بے عزتی کا سبب بنی ،شوہر وہ باتیں نہیں کریں گے۔ شوہر قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتے ہیں کہ میرا مقصد تھا کہ تم اب طلاق مانگ رہی ہو ، ابھی تو میں طلاق نہیں دے رہا ، البتہ مستقبل میں اگر میں نے ایسی باتیں کی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا ۔ جس رات کو یہ معاملہ ہوا اور اسی صبح ہوتے ہی جاگنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ میں نے الفاظ یہ کہیں ہیں " دہ نہ پستہ بیا تا تا داشانتے سہ خبرہ ما اوکڑہ نو زہ بہ تالہ بیا تالا طلاق راکوما" جبکہ مجھے "بیا اور بہ "کے الفاظ یاد نہیں آرہے تھے۔
دوسرا مسئلہ:
میں بیمارہوں اور بیڈریسٹ پر ہوں ، چھوٹے موٹے کام کبھی کر لیتی ہوں، بیماری کی وجہ سے میری بہن یہاں آئی ہوئی تھی تاکہ کھانا وغیرہ اور دوسرے ضروریات میں ہاتھ بٹا سکے ۔ہمارے ہاں آٹومیٹک مشین ہے ،جس میں میں نے اس کے بچوں کے کپڑے دھو لیے، جس پر شوہر غصہ ہوئے باتیں سنائی، چونکہ میں پہلے سے کچھ باتوں پر ناراض تھی ،تو اس بات نے ناراضگی میں مزید اضافہ کیا۔
میری بیماری کی وجہ سے میری بہن دوسری دفعہ آئی تھی ، جب وہ گھر جارہی تھی ،تو میں نے اس کے بچوں کے کپڑے آٹومیٹک مشین میں دھونے چاہے لیکن اس نے منع کر دیا ، اور نہیں دیے۔اس کے جانے کے بعد شوہر سے کہا کہ آپ کی باتوں کی وجہ سے میری بہن نے کپڑے نہیں دئے آپ نے کہا تھا کہ تم نے اس کے کپڑے دھو کر رخصت کیا تھا۔تو میرے شوہر نے جوابا یہ الفاظ کہے
میں اب بھی یہ کہتا ہوں اور یہ حقیقت ہے،طنزا نہیں بولاتھا ،نہ ہی وہ بات دہرائی تھی ،بلکہ "اب بھی کہتا ہوں "سےان مرادیہ بات تھی کہ " کپڑے دھونا تمہاری صحت کے لیے ٹھیک نہیں"اور یہ حقیقت ہے ۔مجھے بعد میں یہ بھی بتایا کہ تمہاری بہن سے میری اس موضوع پر بات ہوئی تھی اس نے بھی کہا تھاکہ میں خفا نہیں ہوئی اور یہ بھی کہا کہ بھائی آپ تو اپنی بیوی کے بھلے کی بات کر رہے ہیں ، کیونکہ وہ بیمار ہے اور کام کاج اس کے لیے ٹھیک نہیں، اگر میں آپ کی اس بات پر خفا ہوتی تو میں پھر دوبارہ میں آپ کے گھر کیوں آتی۔بیماری کی وجہ سے میں کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتی ،میں سیڑھی پر چڑھی تو بھی انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ یہ تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔میری بہن جو موقعے پر موجود تھی ان کا کہنا ہے کہ ،سیڑھی پر چڑنے کا موقعہ ہو یا کپڑے دھونے کا ، دونوں جگہ ڈانٹنے کا مقصد ایک تھا کہ یہ کام صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔یہاں دو سوال مقصود ہیں ۔
1. کیا مسئلہ نمبر ۱ میں طلاق معلق ہو گئی تھی؟
2. شوہر کا دوسری جملہ کہنا کہ میں اب بھی یہ کہتا ہو یہ حقیقت ہے، جس سے مراد تھی کہ کپڑے دھونا آپ کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ،یہ ان باتوں میں تو نہیں آتا جس پر طلاق معلق کی تھی ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سیا ق وسباق سے معلوم ہورہا ہے کہ” اس قسم کی بات “سے گھر والوں کے بارے میں احسا ن جتلانا ، بیوی کی برائیاں اس کے گھر والوں کےسامنے بیان کرکے اس کی شکایتیں کرنا اور دوسری عورتوں کی اچھائیاں اور اسکی برائیاں دوسروں کےسامنے بیان کرکے اس کو تضحیک کا نشانہ بنانا مراد تھی۔ صورت مسئولہ میں اس قسم کی بات پر جو ناراضگی کا سبب بنی تھی، طلاق معلق ہوگئی ۔جب بھی شوہر اس قسم کی بات کرے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ طلاق معلق ہونے کے بعد سوال میں ذکر کردہ واقعات اس قسم کےنہیں جن پر طلاق کو معلق کیا گیا تھا، اس لیے طلاق بدستور معلق ہے۔
تین اور دو میں جو اختلاف ہے ، اگر آپ کو یقین ہے کہ تین دفعہ کہے ہیں ،اور شوہر کو یقین ہے کہ یہ لفظ دو دفعہ کہے ہیں ۔آپ کے پاس گواہ نہیں تو اگر وہ قسم کھا رہے ہیں تو قضاءا دو طلاقیں ہی معلق ہونگی ۔ البتہ آپ کے لیے دیانۃ تین طلاقیں ہی معلق سمجھی جائیں گی۔ اگر شرط پوری ہوئی یعنی شوہر نے ویسی کوئی با ت کہی جن پر طلاق معلق ہوئی ہے، تو پھر آپ کے حق میں تین طلاقیں ہی واقع ہوں گی۔
چونکہ انسان کمزور ہے اور بھول ہو ہی جاتی ہے، تو اس معلق طلاق کو ختم کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ شوہر آپ کو ایک طلاق بائن دے دے،آپ پھر ان سے الگ ہو جائیں ۔ عدت گزرنے کے بعد وہ آپ کو ویسی طنزیہ باتیں کہ دیں جن پر طلاق معلق ہوئی تھی ،قسم بھی ختم ہو جائے گی اور طلاقیں بھی واقع نہ ہوں گی۔اس کے بعد دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر لیں۔البتہ اس کے بعد شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا ۔اور خدانخواستہ کسی وقت دو طلاقیں دیں تو تین پوری ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہو جائے گی ۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 376):
[فروع] في أيمان الفتح ما لفظه، وقد عرف في الطلاق أنه لو قال: إن دخلت الدار فأنت طالق، إن دخلت الدار فأنت طالق، إن دخلت الدار فأنت طالق وقع الثلاث، وأقره المصنف ثمة
قوله: )في أيمان الفتح) خبر عن ما، وليس نعتاً لفروع؛ لأن الفرع الأول فقط في أيمان الفتح ح (قوله: وقع الثلاث) يعني بدخول واحد، كما تدل عليه عبارة أيمان الفتح، حيث قال: ولو قال لامرأته: والله لا أقربك ثم قال: والله لا أقربك، فقربها مرةً لزمه كفارتان. اهـ. والظاهر أنه إن نوى التأكيد يدين ح.
قلت: وتصوير المسألة بما إذا ذكر لكل شرط جزاءً، فلو اقتصر على جزء واحد. ففي البزازية إن دخلت هذه الدار إن دخلت هذه الدار فعبدي حر، وهما واحد۔
حاشية ابن عابدين = (3/ 785):
والحاصل: أن الحلف بطلاق ونحوه تعتبر فيه نية الحالف ظالما أو مظلوما إذا لم ينو خلاف الظاهر كما مر عن الخانية، فلا تطلق زوجته لا قضاء ولا ديانة، بل يأثم لو ظالما إثم الغموس، ولو نوى خلاف الظاهر، فكذلك لكن تعتبر نية ديانة فقط، فلا يصدقه القاضي بل يحكم عليه بوقوع الطلاق إلا إذا كان مظلوما على قول الخصاف ويوافقه ما قدمه الشارح أول الطلاق من أنه لو نوى الطلاق عن وثاق دين إن لم يقرنه بعدد ولو مكرها صدق قضاء أيضا
حاشية ابن عابدين » (3/ 251):
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
05/محرم الحرام /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |