03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خواتین کی تصاویر یا موسیقی پر مشتمل پیغام سوشل میڈیا پرشیئر کرنا
84600جائز و ناجائزامور کا بیانکھیل،گانے اور تصویر کےاحکام

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

  1. . سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع پر کوئی مثبت اور نیکی کا پیغام کسی خاتون  کی تصویریا موسیقی کی آمیزش کے ساتھ نشر کرنے کا کیا حکم ہے ؟جبکہ مقصود موسیقی یا خاتون کی تصویر نہ ہو ،بلکہ نیکی اور مثبت پیغام کی دعوت ہو، البتہ ضمنا کہیں بیچ میں کچھ موسیقی یا کسی خاتون ( بے پردہ چہرے کے ساتھ ) کی تصویر آجاتی ہو۔
  2. . اس دور میں جہاں تصاویر کوقریب کرنے کا امکان ہو اور چلتی ویڈیو کو روک کر اپنی مرضی کی چیز کو دیکھنے اور بار بار دیکھنے کا بھی امکان ہو وہاں با پردہ عورت کے بے پردہ چہرے یا بے پردہ عورت کی تصاویر کو نشر کرنے یا نیک مقصد سے نشر کرکے نیک پیغام پہنچانے کی شرعاً کس حد تک اجازت ہوگی ؟جبکہ بعض مذاہب میں عورت کے چہرے کو شرعاً ضروری بھی نہیں سمجھا جاتا ۔
  3. . کیا اس پر فتن دور میں ڈیجیٹل ذرائع سے ایک مسلمان عورت کو کسی عالمِ دین کے بیان کو سنتے وقت ان عالم دین کے چہرے کی طرف دیکھنے کی اجازت ہے ؟جبکہ بیان سنتے وقت ان کی طرف دیکھنے اور زیارت کرنےکی دل میں رغبت بھی پیدا ہوتی ہو البتہ شھوت نہ ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوالات کے جوابات دینے سے پہلے بطور تمہید   ڈیجیٹل تصویر اورویڈیو  کے بارے میں   مختلف آراء کو ذکر کیا جاتا ہے۔

ڈیجیٹل تصویر اورویڈیو کے حوالہ سے تین قسم کی آراء ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:

١۔ڈیجیٹل ویڈیواورتصویر سایہ یاپانی اورشیشہ میں دکھائی دینے والے عکس کی طرح ہے،لہذاجس چیزکاعکس اورسایہ دیکھناجائزہے،اس کی ڈیجیٹل تصویر کھینچنابھی جائزہے اورجس چیزکاعکس دیکھنااوربراہ راست دیکھناناجائزہے تواس کوڈیجیٹل آلات سے دیکھنابھی ناجائزہے۔

۲۔ ڈیجیٹل تصویر عام پرنٹ والی تصویرکی طرح ہے اورصرف ضرورت شدیدہ کے موقع پراس کی گنجائش ہے ضرورت شدیدہ کا مطلب یہ ہے کہ جان ومال یاعزت وآبروکوکوئی خطرہ ہوتوبوقت اضطرار اس کی گنجائش ہے۔

۳۔ڈیجیٹل تصویر بھی تصویرکی تعریف میں داخل ہے،البتہ اس کے تصویرہونے یانہ ہونے میں علماء کرام کی ایک سے زائدآراء موجود ہیں،اس لئے کسی واقعی اورمعتبردینی یادنیوی ضرورت اورحاجت ومصلحت کیلئے ایسے مناظرکی تصویراورویڈیوبنانے کی گنجائش ہےجن میں تصویرکے علاوہ حرمت کا کوئی اورپہلوموجودنہ ہو،جیسے موسیقی اورخواتین وغیرہ کاہونا۔

یہ تیسری رائے ہمارے دارالافتاء کی ہے،اس لئے بوقت ضرورت وحاجت اورمعتبردینی مصلحت سےڈیجیٹل تصویر بنانے اوردیکھنے دکھانےکی گنجائش ہے ،البتہ چونکہ اس میں دوسری رائے بھی موجود ہے،اس لئے احتیاط کاتقاضایہ ہے  بلاضرورت وحاجت صرف شوقیہ تصویربنانے سے اجتناب کیاجائے۔

                                                                        درج بالا تمہید ذکر کرنے کے بعدآپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب ذکر کیے جاتے ہیں۔

  1. موسیقی کی حرمت پر تمام فقہائے امت کا اتفاق ہے۔ چونکہ مثبت پیغام پہنچانے کیلئے اور ذرائع بھی موجود ہیں۔لہذا کسی مثبت پیغام کو پہنچانے کیلئے موسیقی کا سہارا لینا جائز نہیں۔فقہائے احناف رحمہم اللہ کے نزدیک عورت کیلئے چہرے کا پردہ  خوف فتنہ کی وجہ سےواجب ہے۔لہذا کوئی ایسی ویڈیو  یا تصویر شیئر کرنا جس میں عورت کا چہرہ کھلا ہو جائز نہیں ، اگر چہ اس ویڈیو یا تصویر  سےمثبت پیغام جا رہا ہو۔
  2. با پردہ عورت کے بے پردہ چہرے یا بے پردہ عورت کی تصاویر کو نشر کرنے کی مذہب احناف میں  قطعا اجازت نہیں،اگرچہ اس سے نیک پیغام جارہا ہو۔اگر کوئی ایسی تصویرہو   جس میں عورت   کا پورا جسم   برقعہ  کے ذریعے ڈھکا ہوا  ہواور اس تصویر سے کوئی مثبت پیغام جا رہا ہو تو اس کو  نشر کرنے کی گنجائش ہے۔
  3. كسی مسلمان عورت كيلئےکسی عالمِ دین کے بیان کو سنتے وقت اس عالم دین کے چہرے کی طرف دیکھنے کی اجازت ہے ۔ اس شرط کے ساتھ  کہ فتنہ  میں مبتلا  ہونے کا اندیشہ نہ ہو ۔  لیکن اگر فتنہ  میں مبتلا  ہونے کا اندیشہ ہو تو اس عالم  دین کے چہرے کو دیکھنا جائز نہیں۔
حوالہ جات

( رد المحتار:6/349):

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: وفي التتارخانية عن العيون إن كان السماع سماع القرآن والموعظة يجوز، وإن كان سماع غناء فهو حرام بإجماع العلماء۔

المبسوط للسرخسي (10/ 145):

وبيان هذا أن المرأة من قرنها إلى قدمها عورة هو القياس الظاهر وإليه أشار رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: «المرأة عورة مستورة» ثم أبيح النظر إلى بعض المواضع منها للحاجة والضرورة فكان ذلك استحسانا لكونه أرفق بالناس كما قلنا... فأما النظر إلى الأجنبيات فنقول: يباح النظر إلى موضع الزينة الظاهرة منهن دون الباطنة لقوله تعالى {ولا يبدين زينتهن إلا ما ظهر منها} [النور: 31] وقال علي وابن عباس - رضي الله عنهم -: ما ظهر منها الكحل والخاتم.

المبسوط للسرخسي (10/ 148):

فأما نظر المرأة إلى الرجل فهو كنظر الرجل إلى الرجل لما بينا أن السرة وما فوقها وما تحت الركبة ليس بعورة من الرجل وما لا يكون عورة فالنظر إليه مباح للرجال والنساء كالثياب وغيرها وأشار في كتاب الخنثى إلى أن نظر المرأة إلى الرجل كنظر الرجل إلى ذوات محارمه حتى لا يباح لها أن تنظر إلى ظهره وبطنه لأنه قال: الخنثى ألا ينكشف بين الرجال ولا بين النساء ووجه ذلك أن حكم النظر عند اختلاف الجنس غلظ.

عطاء الر حمٰن

دارالافتاءجامعۃالرشید ،کراچی

14/صفرالمظفر/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عطاء الرحمن بن یوسف خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب