84623 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے متفرق احکام |
سوال
میں بذات خود حج کمپنی کا مالک ہوں اور گزشتہ 18 سے 20 سال سے کراچی پاکستان سے حج کے کام سے منسلک ہوں اور الحمدللہ خود ہر سال حجاج کرام کو اپنی نگرانی میں حج پر لے کے جاتا ہوں۔حج 2023 کی بکنگ کے موقع پر ایک فیملی یعنی میاں بیوی دو افراد نے ہمارے یہاں حج پر جانے کی بکنگ کرائی ،جس کی فی فرد رقم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہوٹل میں ڈبل بیڈ فیملی علیحدہ روم کے ساتھ 16 لاکھ 95 ہزار روپے تھی اور ہماری کمپنی نے 25 ہزار روپے فی فرد ڈسکاؤنٹ کر کے 16 لاکھ ستر ہزار فی فرد کے حساب سے 33 لاکھ 40 ہزار روپے دونوں فریقین کے مابین فائنل طے کیے۔ان صاحب نے چار لاکھ 39 ہزار روپے قرض حسنہ کے طور پر ادھار کیے اور کہا کہ یہ حج سے آنے کے بعد میں آپ کو دے دوں گا، کمپنی نے بھی ان کی دینی نسبت کو دیکھتے ہوئے ان پر اعتبار کیا اور ان سے ادھار کر لیا، حالانکہ کمپنی کا یہ اصول بالکل بھی نہیں ہے کہ ہم ادھار رقم پرحج پر لے کر جائیں، البتہ دینی نسبت کے تحت یہ ادھاری ہو گئی اور اس ادھاری میں کوئی بھی ایسی شرائط طے نہیں ہوئی تھی کہ حج کے سفر میں اگر کوئی کمی کوتاہی یا کوئی بھی حادثہ ہو جاتا ہے تو اس رقم سے کٹوتی کی جائے گی۔اب میں پیکج کی تفصیل آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں اس کے بعد آگے کی گزارشات آپ کے سامنے پیش کروں گا۔یہ پیکج ہمارا طویل دورانیہ 40 دن کا تھا لیکن حتمی ایام کا تعین ایئر لائن سے سیٹیں کنفرم ہونے کے بعد ہی کیا جاتا ہے جو کہ ہمارا ایک معاہدہ حاجی اور کمپنی کے مابین سائن ہوتا ہے اس میں بھی واضح طور پر ہم نے لکھا ہوا ہے اور حاجی اس معاہدے کو پڑھ کر اپنے دستخط بھی کرتا ہے کہ میں ان تمام شرائط سے متفق ہوں،اس میں ہمارا مکہ مکرمہ کے ہوٹل کا قیام آٹھ راتوں کا تھا اور مدینہ منورہ میں ہوٹل کا قیام آٹھ راتوں کا تھا، باقی ایام عزیزیہ بلڈنگ اور حج کے دن تھے۔مکہ مکرمہ میں ہمارا ہوٹل مکہ ٹاور 5 اسٹار بمع ہاف بورڈ بوفے کے ساتھ تھا جبکہ کمپنی نے تمام حجاج کرام کو ہوٹل اپ گریڈ کر کے ابراج البیت ٹاور میں بلمان زمزم ٹاور 5 اسٹار بمع ہاف بورڈ بوفے آٹھ راتوں کا پورا قیام دیا اور مدینہ منورہ میں الاف طیبہ ہوٹل3 اسٹار تین ٹائم سنگل ڈش پارسل کے ساتھ تھاجو کہ 50 میٹر پر گیٹ نمبر 15 پر ہے جبکہ کمپنی نے تمام حجاج کرام کو ہوٹل اپ گریڈ کر کے الاف تقوی ہوٹل 4 اسٹار بمع ہاف بورڈ بوفے جو کہ 50 میٹر پر گیٹ نمبر پانچ پر واقعی ہے آٹھ راتوں کا پورا قیام دیا اور سنگل ڈش پارسل باکس کے بجائے ہوٹل کا لگژری بوفے دیا۔ اس تبدیلی کی صورت میں الحمدللہ کسی بھی حاجی نے کوئی اعتراض نہیں کیا کیونکہ سب کے علم میں تھا کہ جو چیز ہم سے کہی تھی ،ہمیں اس سے بڑھ کر مل رہی ہےاور اس چیز کو آپ خود بھی بہتر سمجھتے ہیں کہ گاہک کو مال دکھا کر رقم طے کر لی جائے اور جوگاہک کو مال دکھا کر رقم طے کی تھی مال اس سے اچھا دیا جائے تو گاہک بھی خوش ہوتا ہے اور اللہ بھی اس سے خوش ہوتے ہیں، ہم وزارت مذہبی امور حکومت پاکستان کے تحت کام کرتے ہیں،اگر یہ بات ان کے بھی سامنےرکھی جائے تو وہ بھی میری اور میری کمپنی کی حوصلہ افزائی ہی کریں گے اور اس کوشکایت کے بجائے اضافی سہولیات کہیں گے۔الحمدللہ عزیزیہ بلڈنگ جو پیکج میں طے کی تھی اسی میں یہ اور تمام حجاج کرام رہائش پذیر تھے، بلکہ ان کو حج کے بعد ان کی فیملی کا علیحدہ ڈبل بیڈ روم جو بغیر کسی معاوضے کے کمپنی نے طے کیا تھا ،وہ اپنے معاہدے کے مطابق پورا کیا،ایئر لائن کا ٹکٹ جو کہ ان ڈائریکٹ فلائٹ کا تھا معاہدے کے مطابق انہیں اور تمام حجاج کرام کو فراہم کی گئی،ٹرانسپورٹ بذریعہ اے سی لگژری بس معاہدے کے مطابق انہیں اور تمام حجاج کرام کو فراہم کی گئی،مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں مقامات کی زیارات طائف اور بدر کے مقامات کی زیارات اور ریاض الجنہ کااجازت نامہ لے کر وہاں کی حاضری ان سمیت تمام حجاج کرام کو فراہم کی گئی،پاکستان اور سعودی عرب میں حج و عمرہ ٹریننگ اور مسجد نبوی کے آداب کے متعلق بیانات کا سلسلہ اور کتب انہیں اور تمام حجاج کرام کو فراہم کی گئی،مکتب جو کہ منی عرفات مزدلفہ میں معلم کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے وہ مکتب کیٹگری C تھا اور الحمدللہ کمپنی نے تمام حجاج کرام کی بکنگ بھی مکتب کیٹگری C میں کرائی ،جس کا ثبوت حج کا ویزہ ہوتا ہے کیونکہ ویزے پر تمام ڈیٹیل لکھی ہوئی ہوتی ہے، اب یہاں تمام حجاج کرام کو ایک مسئلہ یہ آیا کہ 8 ذی الحجہ جو کہ حج کا پہلا دن ہے، اس میں ہمیں منی میں خیمہ نہیں ملا جس کی وجہ سے تمام حجاج کرام کو پورا دن بہت زیادہ پریشانی کا سامنا ہوا اور پورا دن حاجیوں نے خیمے کے باہر روڈ پر اپنا وقت گزارا اور سعودی معلم نے اس میں صرف ہمارے ساتھ کھانے کا تعاون کیا لیکن خیمے کی جگہ اس دن ہمیں نہیں دی، البتہ رات کو ہم عرفات لے گئے اور عرفات میں ہمیں خیمے کی جگہ بھی مل گئی اور جو مکمل سروس معلم کی جانب سے دی جاتی ہےیعنی کھانے وغیرہ کی ،وہ بھی تمام ہمیں مہیا ہو گئیں۔یقینا 8ً ذی الحجہ کو جو پریشانی ہوئی وہ تمام حجاج کرام کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھی جو کہ ہم سے بھی نہیں دیکھی جا رہی تھی اور ایسا سانحہ ہم نے بھی اپنی زندگی کے سفر میں 18 سے 20 سالوں میں پہلی دفعہ دیکھا اور ہم ان کے ساتھ خود بھی اسی طرح جیسے یہ خود کھڑے تھے ہم بھی روڈ پر ہی کھڑے تھے اور بالکل بے بس بے یار و مددگار کھڑے تھے ،یہاں تک کہ ہم نے وزارت حج سعودیہ عربیہ کو کال کر کے بھی بلایا لیکن پھر بھی ان کی طرف سے کوئی ازالہ نہیں ہوا حجاج کرام کی لاکھوں ریال فیس بھرنے کے بعد بھی یہ حادثہ پیش آیا اور یہ حادثہ صرف ہمارے ساتھ ہی نہیں بلکہ ایک کثیر تعداد میں حجاج کرام کے ساتھ پیش آیا ، اس واقعہ کے شواہد سوشل میڈیا پر مختلف چینلز پر موجود ہے اور جب حکومتی سطح پر ہمارے منسٹر صاحب نے بات کی تو ایک تلخ کلامی کے نتیجے میں انہیں بھی چھ سے آٹھ گھنٹے جیل میں بند کر دیا جو کہ سعودی عربیہ گورنمنٹ کا ایک گھٹیا ترین اقدام تھا،وزارت مذہبی امور حکومت پاکستان اور ہماری ایسوسی ایشن حج گروپ آرگنائزر ایسوسی ایشن آف پاکستان نے کافی کوشش کی کہ اس کا ازالہ کچھ رقم واپسی کی صورت میں کیا جائے لیکن سعودی عربیہ گورنمنٹ نے ایک نہ سنی اور ایک حلالہ بھی ریفنڈ نہیں کیا،باقاعدہ وزارت مذہبی امور حکومت پاکستان نے اس بات کا اعلان بھی کیا کہ حج ٹور آپریٹر کے خلاف کسی بھی حجاج کرام کی جو اس سال منی میں جگہ نہ ملنے کا حادثہ ہوا ہے اس کی کوئی شکایت قابل قبول نہیں ہوگی کیونکہ یہ غلطی سعودیہ عربیہ وزارت حج و عمرہ کی ہے، پاکستانی کسی بھی پرائیویٹ حج ٹور آپریٹر کی نہیں۔
یہ تمام تفصیلات جو آپ کے گوش گزار کی گئیں، وہ میں اللہ کو حاضر ناظر رکھتے ہوئے بیان کر رہا ہوں، اس میں رتی برابر بھی کوئی غلط بیانی نہیں ہے،ان صاحب سے جب حج کے بعد پیسوں کا تقاضا کیا گیا تو انہوں نے کافی طویل عرصہ گزرنے کے بعد مجھے یہ میسج کر دیا کہ میں نے دو مفتیان کرام سے پوچھا ہے، میرے ساتھ جو منی میں حادثہ ہوا ہے وہ اور جو پیکج میں تین چار دن کم دیے گئے ہیں ،اس کے نتیجے میں میری کمپنی سے اضافی رقم لینی بنتی ہے حالانکہ ان کے اور کمپنی کے مابین باقاعدہ ایگریمنٹ سائن کیا ہوا ہے کہ فلائٹ کا تعین مقرر ہونے کے بعد دنوں میں تبدیلی آ سکتی ہے اور اس تبدیلی میں حاجی کا کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی راتیں پوری دی گئی ہیں، البتہ عزیزیہ بلڈنگ کی خریداری ایک موسم حج کے اعتبار سے ہوتی ہے، فی رات کے اعتبار سے نہیں ہوتی، جس کی بنا پہ اس کی کوئی واپسی یا کٹوتی عزیزیہ بلڈنگ مالکان کی طرف سے نہیں ہوتی ہے اور یہاں ایک اور بات وضاحت کر دوں کہ ان احباب کی جس ٹائم پہ بکنگ آئی ہے، اس ٹائم پہ ایئر لائن سے بھی کنفرمیشن فلائٹ کی ان کے سامنے رکھ دی گئی تھی ،ان کو آنے جانے کی تاریخ اور دنوں کا اچھے طریقے سے معلوم تھا کہ یہ پیکیج 37 دن کا بن رہا ہے تو اس پر میں نے ان سے کہا کہ وہ کیسے مفتیان کرام ہیں ؟جنہوں نے ایک طرف سن کر فیصلہ کر دیا ،میں نے ان سے مودبانہ گزارش کی کہ یہ حج کا معاملہ ہے،آپ خود اور جو دو مفتیان کرام ہیں، وہ میرے آفس میں آ جائیں یا جہاں آپ کہیں گے میں آجاؤں گا ،وہ میری بھی پوری بات سن لیں اور آپ کی بھی پوری بات سن لیں دو طرفہ بات سن کر شرعی جو فیصلہ بنتا ہے وہ کر دیں تو یہ صاحب نہ خود آتے ہیں نہ مفتیان کرام کو لے کر آتے ہیں نہ ہمیں ملواتے ہیں،حالانکہ ہم ان سے کئی بار یہ بات کہہ چکے ہیں۔
پیکیج کا پرنٹ اور حاجی اور کمپنی کے مابین معاہدہ اس لیٹر کے ساتھ لف ہے اور سفر کی پوری تفصیل آپ کے سامنے رکھ دی گئی ہے ،مسئلہ صرف ایک دن 8 ذی الحجہ کا ہے جس میں ہم معلم کے آگے مجبور تھے اور لاکھوں ریال فیس بھی ادا کرچکے تھے،لہٰذا شرعی اعتبار سے جو فیصلہ بنتا ہے آپ سے درخواست کہ وہ بتا دیجئے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مسؤولہ صورت میں حج کمپنی کی ذمہ داری تھی کہ وہ معاہدے کے مطابق طے شدہ خدمات مکمل طور پر فراہم کرتی،لیکن چونکہ وہ طے شدہ خدمات مکمل طور پر فراہم نہ کرسکی بلکہ جزوی طور پر فراہم کرسکی ہےلہٰذاوہ کامل عوض کی مستحق بھی نہیں ہوگی،بلکہ خدمات لینے والے کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ فراہم نہ کی جانے والی خدمات کے بقدر عوض میں کٹوتی کرلے۔سوال میں ذکر کی گئی تفصیلات کے مطابق اگرچہ حج کمپنی کی کوتاہی نہیں لیکن مذکورہ کسٹمر کا بھی کوئی قصور نہیں ہے،لہٰذا کسٹمر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ منیٰ میں خیمے نہ ملنے کی وجہ سے، عوض میں فقط اسی قدر کمی کرسکتاہے،البتہ بقیہ عوض مکمل طور پر حج کمپنی کو ادا کرنے کا پابند ہے۔
رہی بات پیکج میں چند دن کمی کی تواس حوالے سے سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق کہ "ان احباب کی جس ٹائم پہ بکنگ آئی ہے، اس ٹائم ایئر لائن سے بھی کنفرمیشن فلائٹ کی ان کے سامنے رکھ دی گئی تھی، ان کو آنے جانے کی تاریخ اور دنوں کا اچھے طریقے سے معلوم تھا کہ یہ پیکیج 37 دن کا بن رہا ہے"اور منسلکہ معاہدے میں طے کی جانے والی شرائط میں یہ وضاحت کہ "حتمی ایام کاتعین ایئرلائن سے سیٹیں کنفرم ہونے کے بعد ہی ہوتاہے"کے مطابق حج کے لیےجانے سے پہلے جب کسٹمر کی طرف سے اس پر رضامندی کا اظہار کیا جاچکا تھا تو اس کے عوض کسٹمر کی جانب سےپیکج کی رقم میں کٹوتی کرنا جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 10)
(و) اعلم أن (الأجر لا يلزم بالعقد فلا يجب تسليمه) به (بل بتعجيله أو شرطه في الإجارة) المنجزة، أما المضافة فلا تملك فيها الأجرة بشرط التعجيل إجماعا.وقيل تجعل عقودا في كل الأحكام فيفي برواية تملكها بشرط التعجيل للحاجة شرح وهبانية للشرنبلالي (أو الاستيفاء)للمنفعة (أو تمكنه منه) إلا في ثلاث مذكورة في الأشباه.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 12)
(ويسقط الأجر بالغصب) أي بالحيلولة بين المستأجر والعين؛ لأن حقيقة الغصب لا تجري في العقار، وهل تنفسخ بالغصب؟ قال في الهداية نعم خلافا لقاضي خان، ولو غصب في بعض المدة فبحسابه (إلا إذا أمكن إخراج الغاصب) من الدار مثلا (بشفاعة أو حماية) أشباه.
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 12)
(قوله بالغصب) ؛ لأن تسليم المحل إنما أقيم مقام تسليم المنفعة للتمكن من الانتفاع، فإذا فات التمكن فات التسليم منح.قال الرملي: فلو لم تفت المنفعة بالغصب كغصب الأرض المقررة للغرس والبناء مع الغرس، والبناء لا تسقط لوجوده معه وهي كثيرة الوقوع فتأمل (قوله لا تجري في العقار) أي خلافا لمحمد (قوله وهل تنفسخ بالغصب إلخ) ثمرة الخلاف تظهر فيما إذا زال الغصب قبل انقضاء المدة فعلى القول بعدم الفسخ يستوفي ما بقي من المدة وعليه الأجر بحسابه أبو السعود وكلام المصنف مفرع عليه (قوله ولو غصب في بعض المدة فبحسابه) وكذا لو سلمه الدار إلا بيتا أو سكن معه فيها كما في البحر.
محمد حمزہ سلیمان
دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی
۱۴.صفر۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |