84577 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ایک شخص کے پانچ بچے ہیں،دو بیٹے اور تین بیٹیاں،سب شادی شدہ ہیں،ان میں سے بڑی بیٹی کو طلاق ہوگئی تھی،طلاق دینے والے شوہر سے اس کے تین بچے ہیں،طلاق کے کچھ عرصہ بعد والد نے اپنی اس طلاق یافتہ بیٹی کے نام ایک گھر لکھ دیا،لیکن اس گھر کا قبضہ اسے نہیں دیا،کاغذات بھی اپنے پاس رکھے،کرایہ بھی خود لیتے رہے،اب والدکے انتقال کو پانچ سال کا عرصہ بیت چکا ہے،پوچھنا یہ ہے کہ بیٹی کے نام کیا گیا گھر صرف اسی کا ہوگا،یا اس میں دیگر ورثا کا بھی حق ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ زندگی میں اولاد میں سے کسی کو کچھ دینا ہبہ ہے اور ہبہ کی تکمیل کے لئے قبضہ شرط ہے،اس کے بغیر ہبہ مکمل نہیں ہوتا،چونکہ والد نے گھر صرف لکھنے کی حد تک اس بیٹی کے نام کروایا تھا،قبضہ آخر تک اپنے پاس رکھا تھا،اس لئے یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا ،لہذا یہ گھروالد کے ترکہ میں شامل ہوکر ان کے تمام ورثا کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
البتہ اگر تمام ورثا عاقل بالغ ہیں اور سب باہمی رضامندی سے مکان اس بیٹی کو دے دیں تو یہ سب کے لئے باعثِ اجر و ثواب ہے۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 688):
"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
14/ٍصفر 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |