84637 | میراث کے مسائل | مناسخہ کے احکام |
سوال
سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد حکومت کی جانب سے بنیولنٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی رقم وراثت میں تقسیم ہوگی یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بینوولنٹ فنڈ میں ایک معمولی رقم ملازم کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے، اس کے لئے اور گروپ انشورنس کے لئے بورڈ آف ٹرسٹیز قائم کیاجاتا ہے، یہ دونوں فنڈ ز اس بورڈ کی تحویل میں ہوتے ہیں اور اس بورڈ کے بارے میں ایکٹ بینوولنٹ فنڈ اینڈ گروپ انشورنس 1969ء کی دفعہ نمبر5 میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ یہ ایک باڈی کارپوریٹ ہے، جو ایک شخصِ قانونی (LEGLE PERSON)کے طور پر جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کا مالک بن سکتا ہے، خریدوفروخت کر سکتا ہے اور مقدمات میں مدعی اور مدعی علیہ بن سکتا ہے، لہذا ملازم کی طرف سے اس بورڈ کو دی جانے والی رقم تبرع شمار ہوکر اس بورڈ کی ملکیت میں داخل ہوتی ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہےکہ ادارہ یہ رقم اپنے مجموعی فنڈ(جس میں مرکزی حکومت، دیگراداروں کی طرف سے دی گئی رقوم اور پرائیویٹ افراد اور اداروں کی طرف سے دیے گئے عطیات بھی شامل ہوتے ہیں) داخل کر کے مستحق ملازمین (خواہ وہ ان فنڈز کے استحقاق کے لیے اپنی تنخواہ سےکٹوتی کرواتے ہوں یا نہ) کا تعاون کرے۔
لہذا یہ فنڈ ملازمین کی شخصی یا اجتماعی ملکیت نہیں ہے اور نہ ہی کسی ملازم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ زندگی میں بہرصورت اس فنڈ میں کسی حصے کا مطالبہ کرے،اس لئے اس فنڈ کی مد میں ملنے والی رقم ادارے کی طرف سے جن افراد کے نام جاری ہوگی صرف انہیں کو ملے گی۔
حوالہ جات
"درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" (3/ 55):
"المادة (2 9 0 1) - (كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين وارثيه على حسب حصصهم كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين وارثيه على حسب حصصهم) كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين - وارثيه، على حسب حصصهم الإرثية بموجب علم الفرائض أو بين الموصى لهم بموجب أحكام المسائل المتعلقة بالوصية كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين ورثته على حسب حصصهم الإرثية أو بين الموصى لهم بموجب الوصية لأن هذا الدين ناشئ عن سبب واحد الذي هو الإرث أو الوصية".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
16/صفر1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |