03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گیٹ لائک(getlike) ویب سائٹ سے پیسے کمانے کا حکم
84685اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

(1) پہلا سوال یہ ہے کہ ایک روسی ویب سائٹ ہے ،جس کانام getlike ہے،اس کے ذریعہ مختلف لوگ کمائی کرتے ہیں،کمائی کا طریقہ یہ ہے کہ اس ویب سائٹ پر لوگ سوشل میڈیا(ٹک ٹاک،انسٹا گرام ،ٹویٹر)ایپس پر (فالوورز،لائکس،ویوزکے ذریعے)کماتے ہیں،ویب سائٹ ایک طرف مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہولڈرز سے یہ معاملہ کرتی ہے کہ ہم آپ کے سوشل میڈیااکاؤنٹ کے فالوورز،لائکس اور ویوزوغیرہ  کی تعداد میں اضافہ کرواکر دیں گے ،اس کے عوض آپ ہمیں ہر لائک یا فالوور یا ویوز یا کمنٹس پر پیسے دیں ،جبکہ دوسری طرف یہ ویب سائٹ اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز سے یہ کام کرواتی ہے اور اس کا عوض انہیں دیتی ہے۔مثلاً میں مذکورہ روسی ویب سائٹ یعنی getlike پہ اپنا اکاؤنٹ بناتا ہوں ،اب ویب سائٹ مجھے کام دیتی ہے کہ تم فلاں فلاں سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو لائک کرو ،فالو کرو،ویڈیودیکھو یا کمنٹس کرو وغیرہ ،اس طرح کا جو بھی ٹاسک وہ مجھے دیتی ہے میں پورا کرتا ہوں ،اس کے عوض میں وہ مجھے پیسے دیتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا میرا یہ کام کرنا اور اس کا عوض لینا جائز ہے یا نہیں؟

(2) دوسری بات یہ پوچھنی ہے کہ getlike جیسے مجھے میرے ٹاسک کا عوض دیتی ہے ویسے ہی اگر کوئی شخص میرے واسطے سے اس ویب سائٹ پر کام شروع کرے گا تو اس کا کمیشن بھی مجھے دے گی ،پھر اس کے واسطے سے جو اس ویب سائٹ پر کام کرے گا اس کا کمیشن بھی مجھے ملے گا اور یہ سلسلہ یوں آگے چلتا رہے گا۔سوال یہ ہے کہ یہ ریفرل پر جو کمیشن ملتا رہے گا کیا یہ لینا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1) سوال میں ذکر کردہ تفصیل اور ہماری معلومات کے مطابق getlike کمپنی کا بنیادی کام جائز معلوم نہیں ہوتا،اس لیے کہ مذکورہ ویب سائٹ کا بنیادی کام کسی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے لائکس ،کمنٹس ،ویوز یا فالوورز وغیرہ   مصنوعی طریقے سے بڑھانا اور دوسروں کو یہ باور کرانا ہے کہ یہ تمام لائکس ،کمنٹس،ویوز یا فالوورز اصلی ہیں ،جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ تمام لائکس ،کمنٹس ،ویوز اور فالوورز وغیرہ بالعوض حاصل کیے جاتےہیں،ایسا کرنا دھوکہ دہی،جعلسازی اورغلط بیانی کے زمرے میں آتاہے ،لہٰذا اس کے عوض خود اس ویب سائٹ کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہولڈرز سے اجرت لینا اور اس میں سے اپنی ویب سائٹ کے اکاؤنٹ ہولڈرز کو اجرت دینا اوراسی طرح ان اکاؤنٹ ہولڈرز کا اپنے مذکورہ کام کی اجرت لینا جائز نہیں ہے۔

مذکورہ معاملے کی مزید وضاحت یہ ہے کہ  بالعوض لائک کرنا،فالو کرنا،کمنٹس کرنا یا ویڈیو دیکھنا ،یہ اجارے کا معاملہ ہے،جس میں مذکورہ کاموں کے عوض  اجرت دی جاتی ہے،جبکہ یہ کوئی ایسی منفعت نہیں جو اصلاً مقصود ہو اور شرعاً اس کی اجرت لی جا سکے،اس کےبرعکس جیسے کہ ذکر کیا کہ یہ کام اکثر جعل سازی کےلیے استعمال ہوتا ہے،مثلاً مختلف  کمپنیاں یا انفرادی سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہولڈرزیہ کام اس لیے کرواتے ہیں  کہ ان کی تشہیر ہو اورمصنوعات وغیرہ کی فروخت میں اضافہ ہو سکے،اور اس مقصد  کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اُس  کمپنی کویا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہولڈر کو  یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کی پراڈکٹ یا ایپلیکیشن یا سوشل میڈیا اکاؤنٹ تک اتنے لوگوں کی رسائی ہے حالانکہ وہ لوگ اپنے معاوضے کے لیے لائک ،کمنٹس وغیرہ کر رہے ہوتے ہیں،چونکہ مذکورہ کام اسی طرح کی جعلسازی کے لیے کیا جاتا ہے لہٰذا اس کی اجرت لینا جائز نہیں ہے۔

(2) یہ ملٹی لیول مارکیٹنگ کی ایک شکل ہےاور ملٹی لیول مارکیٹنگ مختلف خرابیوں کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہے،لہٰذا مذکورہ معاملہ بھی ناجائز ہے،اور اس مخصوص معاملے میں ملٹی لیول مارکیٹنگ کے عدم جواز کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ  پہلے سوال کے جواب کے مطابق بنیادی کام ہی ناجائز ہے تو کسی ناجائز کام کے کرنے کے لیے لوگوں کو لانا اور اس کا عوض لینا بھی ناجائز ہوگا۔

حوالہ جات

  الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 4)

وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية وسيجيء.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 4)

(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل.

(شرح القواعد الفقهية، 1/55، دار القلم)

العبرة في العقود للمقاصد والمعاني لا للألفاظ والمباني۔۔۔ والمراد بالمقاصد والمعاني: ما يشمل المقاصد التي تعينها القرائن اللفظية التي توجد في عقد فتكسبه حكم عقد آخر كما سيأتي قريبا في انعقاد الكفالة بلفظ الحوالة، وانعقاد الحوالة بلفظ الكفالة، إذا اشترط فيها براءة المديون عن المطالبة، أو عدم براءته.

وما يشمل المقاصد العرفية المرادة للناس في اصطلاح تخاطبهم، فإنها معتبرة في تعيين جهة العقود، فقد صرح الفقهاء بأنه يحمل كلام كل إنسان على لغته وعرفه وإن خالفت لغة الشرع وعرفه: (ر: رد المحتار، من الوقف عند الكلام على قولهم: وشرط الواقف كنص الشارع) .

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

 ۱۸.صفر۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب