03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہرکےعنین ہونے کی صورت میں مطالبۂ طلاق کا حکم جبکہ بیوی رضامندی کا اظہار صراحتاً کرچکی ہو
84646طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میاں(عامر خان) بیوی (اقرا) نے 8 سال شادی کے بعد گزارے ہیں،اب 8 سال بعد معلوم ہوا، بیوی نے اعتراض کیا کہ شوہر مرادنگی طاقت سے مکمل طور پر محروم ہے،اس دوران بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہیں، شوہر اپنی اس کمزوری کا خود اقرار بھی کرتا ہے، نیز میڈیکل رپورٹس میں بھی یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ شوہر اس حد تک کمزور ہے کہ بیوی کا حق ادا نہیں کرسکتا،ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا ہے لیکن اس کے باجود ڈاکٹر گارنٹی نہیں دیتا کہ اس سے مریض کوافاقہ ہوجائے گا،اب فریقین میں تنازع جاری ہے بیوی فوری طور پر طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اور شوہر فوری طور پر طلاق دینے کیلئے راضی نہیں ہے،شوہر کا مطالبہ ہے کہ میں علاج معالجہ کرتا ہوں،اگر علاج سے افاقہ نہ ہوا تب طلاق دوں گا۔اب دریافت طلب امور یہ ہیں:

1: اس مسئلے کا شرعی حل بیان فرمائیں۔

2: شوہر کا یہ مطالبہ کہ مجھے وقت دیا جائے شرعا ماننا لازمی ہے یا نہیں ؟ اگر شرعا ماننا لازمی ہے تو شوہر کو کتنا وقت دیا جائے؟

3: نیز اگر وقت دینا پڑے تو اس دوران بیوی کا شوہر کے پاس رہنا لازمی ہے جیسا کہ شوہر کا مطالبہ ہے یا پھر وہ اپنے گھر یہ وقت گزار سکتی ہے ؟ نیز ڈاکٹر نے بعض دوائیاں ایسی تجویز کی ہیں جو بوقت ہمبستری استعمال کرنے کی ہیں۔

4: طلاق کے بعد بیوی کو حق مہر دیا جائے گا یا نہیں ؟یاد رہے ابھی تک ایک بار بھی جماع یادخول پر قادر نہیں ہوا ہے۔

تنقیح:سائل نے فون کال پر وضاحت کی ہے کہ علاج شروع کروائے ہوئے تقریباً دو ماہ کا عرصہ ہوا ہے،اسی طرح یہ تفصیل بھی بتائی کہ لڑکی کی شادی بارہ سال کی عمر میں ہوگئی تھی،شوہر شروع سے ہی عنین تھا،لیکن اس کی جانب سے لڑکی کو ہر طرح کی سہولیات حاصل تھیں ،جن سہولیات کی وجہ سے لڑکی ساتھ رہ رہی تھی،البتہ جب بھی اس لڑکی کی ملاقات اپنی بہنوں وغیرہ سے ہوتی تو وہ اولاد کے حوالے سے استفسار کرتیں ،یہ ان کو بتاتی کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ اس حالت میں بھی خوش ہوں اور راضی ہوں،شوہر کے بقول چونکہ شوہر کی طرف سے آزادی اور سہولیات ملی ہوئی تھیں تو وہ اسی حالت پر صبر کرکے رہ رہی تھی،لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے خاندان کے دیگر لوگوں نے اس  عورت سے ملاقاتیں کرکے اس کا ذہن خراب کیا اور اب وہ فوراً طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(۲،۱)سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق چونکہ بیوی اپنے عنین(نامرد)شوہر کے ساتھ رہنے پر رضامندی کا اظہارصراحتاً کرچکی ہے،لہٰذا بیوی کو اپنے عنین(نامرد )شوہر سے طلاق یا فسخ نکاح کےمطالبے کا اختیار نہیں ہے،البتہ شوہر کو چاہیے کہ سنجیدگی سے علاج کے باوجود اگر افاقہ نہ ہو تو اپنی بیوی کو طلاق یا خلع دے دے،تاکہ مذکورہ عورت کسی دوسری جگہ نکاح  کرسکے۔

۳)اگر بیوی کے لیے شوہر کی طرف سے نان نفقے وغیرہ کا انتظام موجود ہو اور بیوی کو شوہر کے ساتھ رہنے میں کوئی شدید حرج بھی لازم نہ آتا ہو تو بیوی کو شوہر کے ساتھ رہنا چاہیے،بالخصوص جبکہ شوہر کو علاج کے لیے ڈاکٹرکی ہدایات کے مطابق بیوی کو ساتھ رکھنے کی ضرورت بھی ہے۔

۴)مذکورہ تفصیل کے مطابق اگر طلاق کی نوبت آئی تو بیوی کو مکمل مہر ملے گا اور عدت بھی لازم ہوگی۔

حوالہ جات

الفتاوى الهندية (1/ 524)

إن علمت المرأة وقت النكاح أنه عنين لا يصل إلى النساء لا يكون لها حق الخصومة، وإن لم تعلم وقت النكاح وعلمت بعد ذلك كان لها حق الخصومة ولا يبطل حقها بترك الخصومة، وإن طال الزمان ما لم ترض بذلك كذا في فتاوى قاضي خان.

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 499)

(قوله: لم يبطل حقها) أي ما لم تقل: رضيت بالمقام معه كذا قيده في التتارخانية عن المحيط هنا، وفي قوله الآتي كما لو رافعته إلخ (قوله: ثم تركت مدة) أي قبل المرافعة والتأجيل لئلا يتكرر بما بعده.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 498)

(قوله: وإلا بانت بالتفريق) لأنها فرقة قبل الدخول حقيقة، فكانت بائنة ولها كمال المهر وعليها العدة لوجود الخلوة الصحيحة بحر (قوله: من القاضي إن أبى طلاقها) أي إن أبى الزوج لأنه وجب عليه التسريح بالإحسان حين عجز عن الإمساك بالمعروف، فإذا امتنع كان ظالما فناب عنه وأضيف فعله إليه

الفتاوى الهندية (1/ 524)

ولها المهر كاملا وعليها العدة بالإجماع إن كان الزوج قد خلا بها، وإن لم يخل بها فلا عدة عليها ولها نصف المهر إن كان مسمى والمتعة إن لم يكن مسمى كذا في البدائع.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

          ۱۸.صفر/۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب