03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹوں کے مہر میں لکھے گئے مکان کی وراثت میں تقسیم کا حکم
84680میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

محترم مفتی صاحب! مسئلہ کی صورت یہ ہے کہ والد صاحب کے وفات کے وقت ہم پانچ بھائی تھے اور دو ہماری بہنیں تھیں،والد صاحب کی ملکیت میں جو مکان تھا وہی ہمارا رہائشی مکان تھا جس کا رقبہ ایک کنال اور دو مرلے ہے،اس میں والد کے نام پر انتقال صرف ایک کنال کا ہے، ہمارے علاقے میں دستور یہ ہے کہ مہر نکاح میں"رہائشی مکان میں کمرہ مع صحن و راستہ" بھی لکھتے ہیں۔

ہمارے کچھ بھائیوں کے مہر نکاح میں تو "کمرہ مع صحن و راستہ" لکھا ہے اور کچھ کے مہر نکاح میں "ایک کنال کے مکان میں پانچواں حصہ" لکھا ہے،واضح رہے کہ سب بھائیوں کی شادی سے پہلے اس رقبہ پر مکان کے ساتھ متصل ایک مہمان خانہ بھی بنایا گیا تھا جسے ہم "بیٹھک" کہتے ہیں،بعد میں اسی بیٹھک کو پانچ دکانیں بنادیا گیا اور بیٹھک ان دکانوں کے اوپر بنائی گئی، اب والد صاحب کی وفات کے بعد ایک بھائی کہتا ہے کہ مکان میں تو کیا ان دکانوں کے کرایہ میں بھی بہنوں کا حصہ نہیں ہے،کیونکہ بیٹھک بھی مکان کا حصہ ہے،جبکہ دوسرا بھائی کہتا ہے کہ بہنوں کا حصہ ان دکانوں اور کرایہ میں بنتا ہے،کیونکہ بیٹھک رہائشی مکان سے خارج ہوتی ہے تو یہ دکانیں بھی رہائشی مکان میں شامل نہیں ہے اور یہ دکانیں مہر میں نہیں،کیونکہ مہر میں تذکرہ "رہائشی مکان" کا ہوا ہے۔

اور ہمارے علاقے کے ایک مفتی صاحب نے فرمایا کہ یہ ہمارے عرف میں ہے کہ والد بہو کے مہر نکاح میں کمرہ وغیرہ تو لکھتاہے اور بہو بیٹا اس میں رہائش پذیر بھی ہوتے ہیں،مگر ان کو اس میں مالکانہ تصرف کا اختیار نہیں دیتا جس کی وجہ سے یہ تملیک تام نہ ہوئی،نتیجۃً یہ دکانیں اور مکان والد کے وفات کے بعد ان کی میراث ہے جس میں سب بہن بھائی شریک ہیں،باقی رہا لکھا ہوا مہر تو اس کی ذمہ داری بیٹوں پر ہے کہ ہر ایک اپنے مہر کی مقررہ جائیداد کے بقدر قیمت اپنی بیوی کو ادا کرے۔

تنقیح:سائل نے بتایا کہ ان کے علاقے کا دستور یہ ہے کہ والد بیٹوں کے مہر کا ضامن ہوتا ہے اور جو بھی مہر طے ہوتا ہے والد ادا کرتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ مکان کے جو حصے بیٹوں کے مہر کے طور پر لکھ دیئے گئے ہیں وہ ان بیٹوں کی بیویوں کی ملکیت ہیں،لہذا والد کی وفات کے بعد وہ ان کے ترکہ میں شامل نہیں  ہوں گے،البتہ بیٹھک کو چونکہ کسی  بیٹے کے مہر کے طور پر نہیں لکھا گیا،اس لئے اس کی زمین والد کی ملکیت میں رہی،لہذا بیٹھک کی جگہ جس پر بعد میں دکانیں تعمیر کردی گئی تھیں بیٹھک سمیت مرحوم والد کے ترکہ میں شامل ہوں گی،لہذا اس میں جس طرح مرحوم کے بیٹوں کا حصہ ہے اسی طرح بیٹوں کا بھی حصہ ہے اور ان دکانوں سے حاصل ہونے والے کرایہ میں سے بیٹیوں کو ان کا حصہ دینا لازم ہے۔

بقیہ مفتی صاحب کا یہ کہنا کہ چونکہ والد صاحب نے انہیں قبضہ نہیں دیا تھا اس وجہ سے مکان کے وہ حصے بھی وراثت میں تقسیم ہوں گے،درست نہیں،کیونکہ مکان کے یہ حصے ہبہ کے طور پر نہیں دیئے گئے بلکہ مہر کے طور دیئے گئے ہیں اور ہبہ کے مکمل ہونے کے لئے قبضہ شرط ہے،لیکن مہر پر ملکیت کے لئے قبضہ شرط نہیں،جبکہ علاقے کاعرف یہی ہے کہ والد اپنے بیٹوں کے مہر  کا ضامن ہوتا ہے  اور ادا کرتا ہے۔   

حوالہ جات

"الفتاوى الهندية" (1/ 310):

"ولو تزوج على نصيبه من هذه الدار قال أبو حنيفة – رحمهﷲ تعالى - لها الخيار إن شاءت أخذت النصيب، وإن شاءت أخذت مهر مثلها لا يزاد على قيمة الدار، وإن كان مهر مثلها أكثر وعلى قول صاحبيه - رحمهما الله تعالى - لها النصيب من الدار إن كان النصيب يساوي عشرة دراهم، كذا في فتاوى قاضي خان". "رد المحتار"(3/ 129):

"حاصل هذه المسألة أن المسمى إذا كان من غير النقود بأن كان عرضا أو حيوانا إما أن يكون معينا بإشارة أو إضافة فيجب بعينه". "رد المحتار" (3/ 143):

"[فرع] في الفيض: ولو أعطى ضيعة بمهر امرأة ابنه ولم تقبضها حتى مات الأب فباعتها المرأة لم يصح إلا إذا ضمن الأب المهر ثم أعطى الضيعة به فحينئذ لا حاجة إلى القبض". "البحر الرائق " (3/ 188):

"وفي البزازية إذا أعطى الأب أرضا في مهر امرأته ثم مات الأب قبل قبض المرأة لا تكون الأرض لها؛ لأنها هبة من الأب لم تتم بالتسليم فإن ضمن المهر وأدى الأرض عنه ثم مات قبل التسليم كانت الأرض للمرأة؛ لأنه بيع فلا يبطل بالموت". "المبسوط للسرخسي" (13/ 10):

 "كذلك التصرف في المهر قبل القبض يجوز عندنا لانعدام الغرر في الملك فإن بالهلاك لا يبطل ملكها ولكن على الزوج قيمته لها". "فتح القدير " (3/ 388):

"(قوله بخلاف المشتري) متصل بقوله يتم بنفس العقد: أي أن الملك في الصداق المعين يتم بنفس العقد ولهذا نملك التصرف فيه بالبيع وغيره، وبخلاف المشتري لا يتم بنفس العقد ولا يملك التصرف فيه، والقبض فيه هو المفيد لملك التصرف والإسلام مانع منه".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

20/صفر 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب