03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد میں مکتب کھولنا ،فیس وصول کرنا اور مختلف مصارف میں خرچ کرنا
84676وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء ِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

سائل ایک مسجد میں خطیب ہے اور عصر کے بعد درس قرآن بھی دیتا ہے اور مسجد کا منتظم بھی ہے۔ مسجد میں ایک مکتب بنایا ہے اور مسجد کے ایک امام کو پڑھانے کے لئے رکھا ہے ۔ اور بچوں سے فیس لی جاتی ہے۔امام صاحب کا کہنا ہے کہ شرعی اعتبار سےمکتب کا منتظم پڑھانے والا ہی ہوگا اور جو فیس جمع ہو جاتی ہے وہ سب اسی کی ہوگی۔ ان پیسوں کو نہ مسجد میں لگا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی اورکو دے سکتے ہیں حتی کہ مکتب کے کھولنے والے کو بھی نہیں۔

اب درجہ ذیل سولات کے جوابات مطلوب ہیں :

١۔کیا ان پیسوں کو مسجد میں لگا سکتے ہیں یانہیں؟جیسے کہ وصول شدہ فیس سے پڑھائی کے دورانیہ میں استعمال ہونے والی بجلی یا گیس کا بل ادا کرنا وغیرہ؟

۲۔ کیا مکتب کے کھولنے والے کو اس میں سے دے سکتے ہیں یانہیں؟

۳ ۔ کیا مسجد میں مکتب کھولنا جائزہے یانہیں ؟

۴۔کیا امام یا خطیب وغیرہ مسجد کمیٹی کا ممبر بن سکتا ہے کہ نہیں ؟

۵۔کیا متولی کے لئے مسجد کے آس پاس زمینی جائیداد کا ہونا شرط ہے؟ جسکی سربراہی میں مسجد کی زمین خریدی گئی ہو۔

٦۔کیا کسی امام کو کمیٹی بغیر کسی شرعی عذر کے امامت سے ہٹا سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔یہ رقم مکتب کھولنےوالے کا حق ہے اورامام اس کا ملازم ہے،لہذا مکتب کھولنے والےپر مکتب پڑھانے والے امام کی مقررہ تنخواہ لازم ہے اورمکتب کی بچوں سے اکٹھی ہونے والی فیس اس کی ملک ہے، جہاں چاہے وہ اسے لگاسکتاہے، لہذا اگروہ اس کو مسجد کے بلوں یا دیگرضروریات میں خرچ کرناچاہتاہےتو وہ ایساکرسکتاہے،اس میں کوئی شرعی مانع نہیں ہے ۔

۲۔ جی دے سکتے ہیں ،بلکہ یہ پوری رقم ان کا حق ہے اوران پر امام کی مقررتنخواہ لازم ہے،چاہے تو فیسوں سے دے یا کہیں اورسے اس کا انتظام کرے۔

۳۔ اگر بچے اتنے بڑے ہوں کہ اُن کی وجہ سے مسجد کے ناپاک ہونے کا خطرہ نہ ہو، تو ایسے بچوں کےلیےبوقت ضرورت مسجد کی حدود میں آداب کا پورااحترام کرتےہوئے مکتب کھولنا  اورتعلیم دینا شرعاً جائز ہے۔

۴۔اگرواقف/محلہ والے اس کورکن کمیٹی بنادے توبالکل بن سکتاہے،اس میں شرعا کوئی مانع نہیں ہے۔

۵۔شرعاً متولی بننے کےلیے ایسی کوئی شرط نہیں ہے،لہذا ایسا شخص بھی متولی بن سکتاہے جس کی مسجد کے آس پاس زمین اورجائیداد نہ ہوجبکہ واقف/ اہل محلہ اس کومتولی بنادے۔

٦۔مسجد کے امام کی حیثیت وقف کے ملازم کی ہے ، ملازمِ وقف کا حکم یہ ہے کہ اگر ملازم میں مفوضہ ذمہ داری کما حقہ انجام دینے کی صلاحیت موجود ہو اور اس کو انجام دے بھی رہا ہو ، تو ایسی صورت میں کسی معقول وجہ کے بغیر اسے ملازمت سے فارغ کر نادرست نہیں۔ ہاں کوئی معقول وجہ ہو تو فارغ  کیا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات

عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرّ بمجلسین في مسجدہ: أحد المجلسین یدعون اللّٰہ ویرغبون إلیہ، والآخر یتعلمون الفقہ ویعلمونہ۔ فقال رسول اللّٰہ: کلا المجلسین علی خیر، وأحدہما أفضل من الآخر صاحبہ، أما ہٰؤلاء فیدعون اللّٰہ ویرغبون إلیہ، فإن شاء أعطاہم وإن شاء منعہم، وأما ہٰؤلاء فیتعلمون ویعلمون الجاہل؛ وإنما بعثت معلمًا۔ (جامع العلم ۱؍۵۰)عن جندب بن عبد اللّٰہ البجلي رضي اللّٰہ عنہ قال: أتیت المدینۃ ابتغاء العلم فدخلت مسجد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ فإذا الناس فیہ حلق یتحدثون، فجعلت أمضی الحلق، حتی أتیت حلقۃ فیہا رجل شاحب علیہ ثوبان کأنما قدم من سفر، قال: فسمعتہ یقول: ہلک أصحاب العقدۃ ورب الکعبۃ! ولا آسی علیہم - أحسبہ قال مرارًا - قال: فجلست إلیہ فتحدث بما قضی لہ ثم قام قال: فسألت عنہ بعد ما قام، قلت: من ہٰذا؟ قالوا: ہٰذا سید المسلمین أبي بن کعب رضي اللّٰہ عنہ۔ (طبقات ابن سعد ۳؍۵۰۱)عن ہلال بن یساف قال: قدمت البصرۃ فدخلت المسجد فإذا أنا بشیخ أبیض الرأس واللحیۃ مستند إلی أسطوانۃ في حلقۃ یحدثہم، فسألت من ہٰذا؟ قالوا: عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ۔ (طبقات ابن سعد ۴؍۲۹۱، حیاۃ الصحابۃ، الترغیب في العلم / مجالس العلم ومجالسۃ العلماء ۳؍۲۰۹-۲۱۰ إدارۃ إشاعۃ دینیات نیو دلہي)

وفی البزازیة:

وتعلیم الصبیان فیہ بلا أجر وبالأجر یجوز۔ (فتاوی البزازیۃ علی ہامش الفتاویٰ الہندیۃ ۶؍۳۵۷)

فلا یجوز لأحد مطلقًا أن یمنع مؤمنًا من عبادۃ یأتي بہا في المسجد؛ لأن المسجد ما بني إلا لہا من صلاۃ واعتکاف وذکر شرعي وتعلیم علم وتعلمہ وقراء ۃ قرآن۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ / باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ۲؍۶۰ زکریا، وکذا في شرح الأشباہ والنظائر للحموي ۴؍۶۳ إدارۃ القرآن کراچی)

عن واثلۃ بن الاسقع ، أن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال: جنبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم ، وشراء کم ، وبیعکم ، وخصوماتکم الحدیث: ( سنن ابن ماجہ ، باب ما یکرہ فی المساجد ، النسخۃ الہندیۃ/۵۴، دارالسلام رقم: ۷۵۰)

ویحرم إدخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسہم وإلا فیکرہ (الدر المختار) فقولہ: إلا فیکرہ: أي تنزیہًا، تأمل۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ / باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد ۱؍۶۵۶-۶۵۷ کراچی، الأشباہ والنظائر / القول في أحکام المسجد ۴؍۵۴ إدارۃ القرآن کراچی، وکذا في الحلبي الکبیر / فصل في أحکام المسجد ۶۱۰ لاہور)

مسجد میں یا صحنِ مسجد یا خارجِ مسجد حجرہ وغیرہ میں فیس والے بچوں کو جو کلام پاک یا دینیات وغیرہ پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟باسمہٖ سبحانہ تعالیٰالجواب وباللّٰہ التوفیق: جائز ہے، جب کہ اہل مسجد کی طرف سے اجازت ہو۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۱۴؍۶۰۲ ڈابھیل)

مسجد میں مکتب قائم کرنا جائز ہے، بشرطیکہ مسجد میں ایسے ناسمجھ بچوں کو نہ لایاجائے، جن کے

 مسجد میں پیشاب پائخانہ کردینے کا خطرہ ہو او رمسجد کے آداب واحترام کا پورا اہتمام رکھا جائے۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۶/۴۵۶)

وفي الدرالمختار:

قبیل باب الوتر، ونوافل ولأھل المحلۃ منع من لیس منھم عن الصلوٰۃ فیہ (أي إذا ضاق بھم المسجد کما في رد المحتار) ولھم نصب متول۔ في رد المحتار: أي ولوبلانصب قاض کما قدمناہ عن العنایۃ(الدر المختار مع الشاميٓ، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا قبیل باب الوتر والنوافل، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/۴۳۷، کراچي ۱/۶۶۲-۶۶۳۔)

ولایۃ الا ذان والا قامۃ لبانی المسجد مطلقا وکذا الا مامۃ لو عد لا (درمختار)

البانی للمسجد أولیٰ من القوم بنصب الإمام والمؤذن فی المختار ، إلا إذاعین القوم أصلح ممن عینہ البانی۔ (درمختار علی ہامش رد المختار ، کتاب الوقف ،مطلب باع عقاراً ثم أدعیٰ أنہ وقف مصري۳/۴۵۴، کراچی۴/۴۳۰، زکریا۶/۶۴۵)

سئل شیخ الإسلام عن أهل مسجد اتفقوا علی نصب رجل متولیا لمصالح مسجد ہم فتولی ذلک باتفاقهم هل یصیر متولیا مطلق التصرف في مال المسجد علی حسب ما لو قلدہ القاضي؟ قال: نعم! قال: مشایخنا المتقدمون یجیبون عن هذہ المسألۃ ویقولون: نعم! والأفضل أن یکون ذلک بأمر القاضي، ثم اتفق المشایخ المتأخرون وأستاذنا علی أن الأفضل أن ینصبوا متولیا ولا یعلموا القاضي في زماننا لما عرف من طمع القضاۃ في أموال الأوقاف۔ (الفتاوی التارتاخانیۃ، کتاب الوقف، الفصل الحادي والعشرون في مسائل وقف المساجد، مکتبہ زکریا دیوبند ۸/۱۸۰، رقم:۱۱۵۷۱) 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق : 412/14 ، المكتبة الشاملة :

" واستفيد من عدم صحة عزل الناظر بغير جنحة عدمها لصاحب وظيفة في وقف. "

رد المحتار : 320/17، المكتبة الشاملة:

مطلب لا يصح عزل صاحب وظيفة بلا جنحة أو عدم أهلية [ تنبيه ] قال في البحر واستفيد من عدم صحة عزل الناظر بلاجنحة عدمها لصاحب وظيفة في وقف بغير جنحة وعدم أهلية واستدل على ذلك بمسألة غيبة المتعلم من أنه لا تؤخذ حجرته ووظيفته على حالها إذا كانت غيبته ثلاثة أشهر، فهذا مع الغيبة فكيف مع الحضرة والمباشرة وستأتي مسألة الغيبة وحكم الاستنابة في الوظائف قبيل قول المصنف ولاية نصب القيم إلى الواقف ، وفي آخر الفن الثالث من الأشباه إذا ولى السلطان مدر ساليس بأهل لم تصح توليته ؛ لأن فعله مفيد بالمصلحة خصوصا إن كان المقرر عن مدرس أهلا فإن الأهل لم يتعزل وصرح البزازي في الصلح ، بأن السلطان إذا أعطى غير المستحق فقد ظلم مرتين بمنع المستحق

وإعطاءه غير المستحق اهـ ملخصا . "

حاشية رد المحتار : 402/4 ، المكتبة الشاملة:

" وأنت خبير بأن الحكم يدور مع علته، فإن العلة هي إحياء خلف العلماء ومساعدتهم على تحصيل العلم، فإذا اتبع الابن طريقة والده في الاشتغال في العلم، فذلك ظاهر، أما إذا أهمل ذلك واشتغل باللهو واللعب أو في أمور الدنيا جاهلا غافلا معطلا للوظائف المذكورة، أو ينيب غيره من أهل العلم بشئ قليل ويصرف باقي ذلك في شهواته ، فإنه لا بحل لما فيه من أخذ وظائف العلماء وتركهم بلا شئ يستعينون به على العلم : م كما هو الواقع في زماننا، فإن عامة أوقاف المدارس والمساجد والوظائف في أيدي جهلة أكثرهم لا يعلمون شيئا من فرائض دينهم، ويأكلون ذلك بلا مباشرة ولا إنابة بسبب تمسكهم بأن خبز الاب لابنه، فيتوارثون الوظائف أبا عن جد كلهم جهلة كالانعام، ويكبرون بذلك فراهم وعمائمهم، ويتصدرون في البلدة حتى أدى ذلك إلى اندراس المدارس والمساجد، وأكثرها صار بيوتا باعوها أو بساتين استغلوها فمن أراد أن يطلب العلم لا يجد له مأوى يسكنه ولا شيئا يأكله فيضطر إلى أن يترك العلم ويكتسب. ووقع في زماننا أن رجلا من أكابر دمشق مات عن ولد أجهل منه لا يقر أو لا يكتب، فوجهت من وظائفه تولية مسجد و مدرسة على رجلين من أعلم علماء دمشق، فذهب ولده وعزلهما عن ذلك بالرشوة.وفي أواخر الفن الثالث من الاشباه : إذا ولى السلطان مدرساليس بأهل لم تصح توليته.و في البزازية : السلطان إذا أعطى غير المستحق فقد ظلم مرتين بمنع المستحق، وإعطاء غيره اه. ففي توجيه هذه الوظائف لا بناء هؤلاء الجهلة ضياع العلم والدين، وإعانتهم على إضرار المسلمين، فيجب على ولاة الأمور توجيهها على أهلها ونزعها من أيدي غير الأهل، وإذا مات أحد من أهلها توجه على ولده، فإن لم يخرج على طريقة والده يعزل عنها وتوجه للاهل، إذ لا شك أن غرض الواقف إحياء ما أوقفه من ذلك، فكل ما كان فيه تضييعه فهو مخالف لغرض الشرع، والواقف هذا هو الحق الذي لا تحيد عنه ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم.

المحيط البرهاني في الفقه النعماني : 89/12 المكتبة الشاملة:

رجل بني مسجداً أو جعل له مؤذناً هو فيه وكرهه أهل المسجد وقالوا: يجعل مؤذن غيرك فليس ذلك لهم، إنما واللہ سبحانہ و تعالی العمرالأمر في ذلك إلى الذي بناه ."

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

20/02/1446ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب