84745 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
فلسطین کے خلاف اسرائیلی جنگ ہورہی ہے اور بہت سے ملک اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں ،جبکہ بہت سے خاموش ہیں۔ کیا ان حالات میں امریکا سے کاروبار کرنا صحیح ہے ؟ امریکہ کی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعاون کررہی ہے ،لیکن امریکا کے لوگ اس کے خلاف ہیں، تو کیا امریکہ کے لوگوں کے ساتھ کاروبار کرنا درست ہے ؟ اگر ہم امریکا کے لوگوں کے ساتھ کاروبار کرتےہیں تو امریکہ کی حکومت کو کچھ نہ کچھ ضرور فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ وہاں کے لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں ،اسی طرح کرنسیوں کی تبدیلی سے بھی انہیں فائدہ ہوتا ہے۔ اگر امریکا کے لوگوں سے بھی کاروبار کرنا ٹھیک نہیں، تو پھر ہم لوگ بائیکاٹ نہیں کرسکتے ،کیونکہ ہماری ساری چیزیں ان سے منسلک ہیں، جیسا کہ فیس بک ، یو ٹیوب ، انٹرنیٹ ، سٹاک ایکسچینج ، ہوائی جہاز ، کپڑے ، گاڑیوں کے پارٹس، لیپ ٹاپ ، موبائل پر چلنے والا سافٹ ویئر، گویا سب کچھ ان سے منسلک ہے ، اور ان سب چیزوں سے ہمارے کام ، کاروبار اور پڑھائی منسلک ہے، ان سب کا کیا حکم ہے ؟ اسی طرح بہت سے ممالک ہیں جو خاموش ہیں اور ہم ان سے کاروبار کرتے ہیں۔ جیسا کہ چائینہ ، جرمنی ، یوکے وغیرہ ،ان سے کاروبار کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ میرا کاروبار فیس بک سے منسلک ہے، کیا وہ جائز ہے؟ جیسا کہ فیس بک کا مالک اسرائیل کے تعاون میں شامل نہیں ،مگر وہ امریکہ کو ٹیکس دیتا ہے۔ میرا ایک کاروبارکرنے کا ارادہ ہے، جس میں ہم امریکا کے لوگوں سے بات کرتے ہیں اور ان کو راستہ بتاتے ہیں ۔ کیا یہ کاروبار درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کچھ چیزوں کا تعلق فتوی سے نہیں بلکہ احساس اور غیرت ایمانی سے ہوتا ہے۔ظالم ملک یا ان کے حامی ، جو مسلمان بچوں ،عورتوں ، بوڑھوں کا قتل عام کریں ،ان کو کسی بھی درجہ میں فائدہ دیناغیرت ایمانی تو دورغیرت انسانی کے بھی خلاف ہے۔اصل تو یہ ہے کہ جب کسی مسلمان علاقے پر حملہ ہو اور ان کی قوت دفاع کے لیے کافی نہ ہو ،تو قریبی علاقوں ، پھر ان کےقریبی علاقوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں مسلم ممالک غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں اور اس فریضےسے غافل ہیں ، عوام کے پاس جو ایک کمزورذریعہ رہ جاتا ہے وہ یہی ہے کہ ان کی اور ان کے حامیوں کی اشیاء کو جہاں تک ممکن ،ہو نہ خریدا جائے ۔ معاشی بایئکاٹ کا فائدہ ہوتا ہے ،لیکن یہ فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب باقاعدہ مکمل طریقے سے بائیکاٹ کیا جائے۔اور اس کو مسلسل جاری رکھا جائے ۔وقتی طور پر جذباتی بائیکاٹ دشمن کے بجائےمقامی تاجروں کے نقصان کا باعث بنتا ہے۔بہر حال بحیثیت مسلم ہمیں اپنی طرف سے اپنی وسعت کے مطابق جہاں تک ہو سکے ایسی اشیاء کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے جن سے اسرائیل یا ان کے حامیوں کو فائدہ ہو ۔
اشیاء کی درج ذیل قسمیں بن سکتی ہیں :
۱۔ ایسی اشیاء جن کا نفع بلاواسطہ اسرائیلی جنگ میں استعمال ہو تا ہے ۔ان کو خریدنا کسی صورت جائز نہ ہوگا۔
۲۔ایسی اشیاء جن کےاستعمال اورخرید وفروخت کا مقصد اسرائیلی جنگ اور سپورٹ تو نہیں لیکن بالواسطہ کچھ نہ کچھ نفع ٹیکس کی صورت میں وہاں جاسکتا ہے۔ان اشیاء کی پھر مختلف صورتیں ہیں :
۱۔اشیاء ضروریہ ہوں جیسے لیپ ٹاپ ، فیس بک ،واٹس ایپ، دوائیں ،میڈیکل اور مشینری وغیرہ ۔ ان کا متبادل موجود نہ ہو توحرج کی وجہ سے استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں،اور اگر رائج متبادل موجود ہوں توغیرت ایمانی کا تقاضا یہ ہے کہ معیار پرسمجھوتا کر کے متبادل کی طرف رجوع کیا جائے۔
۲۔جن اشیاء کا تعلق ضروریات سے نہیں لیکن معاشرے میں رائج ہو چکی ہوں جیسے مختلف قسم کی آئس کریم ،کولڈ ڈرنکس، شیمپو وغیرہ ۔اگر ان کے متبادل موجود ہو ں جیسے کہ اکثر کے موجود ہیں تو متبادل کی طرف جانا چاہیے ، اگر متبادل موجود نہ ہو تو غیرت ایمانی کا تقاضا تو یہی ہے کہ مظلوم مسلمانوں کی خاطر اپنی پسند اور ذائقے کی قربانی دےدی جائےاور ان چیزوں سے مکمل اجتناب کیا جائے ۔
امریکہ سے جس کاروبار کی بات آپ نے کی اس میں چونکہ پیسے کا بہاؤامریکہ سے اس طرف ہورہا ہے اور آپ صرف سروس فراہم کر رہے ہیں ،تو اس میں کسی اعتبار سے بھی حرج نہ ہوگا۔
موجودہ دور میں کسی ملک کی معیشت بھی جنگ میں اہم کردار ادا کرتی ہے ، کسی ملک کی معیشت کو مضبوط کرنا بھی اس کی مدد کرنا ہے، فقہاء نے دارالحرب میں لوہا بیچنے کو منع کیا ہے،اور اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ یہ اہل حرب کی ایک طرح کی مدد ہے۔موجودہ دور میں جنگ کرنے نہ کرنے کا فیصلہ ، ہتھیاروں کی خرید و فروخت ،اور ہتھیاروں کے بنانے کے اخراجات سب معیشت سے متعلق ہیں ،لہذا موجودہ صورت حال میں جو حکم صحیح معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ ملک جو اسرائیل کی ہتھیاروں یا جنگ میں فنڈ کے ذریعے مدد کرتا ہے ،یا کوئی کمپنی جو کسی بھی طرح براہ راست اسرائیل کی مدد میں مصروف ہو ، متبادل کے ہوتے ہوئےان سے کسی قسم کا ایسا تجارتی لین دین رکھنا جس میں ان کا فائدہ ہو ،ان کی معیشت مضبوط ہوتی ہو،اس سے بالکل اجتناب کرنا چاہیے ، ان سے اس قسم کا لین دین رکھنا غیرت ایمانی کے خلاف ہے۔
حوالہ جات
الموسوعة الفقهية الكويتية (111/7):
عمل ما ينفع أهل الحرب ويقويهم:
الوصية لأهل الحرب:
هناك اتجاهان في الوصية لأهل الحرب:
الاتجاه الأول : لا تصح الوصية للحربي إذا كان في دار الحرب؛ لأن في ذلك قوة لهم، فالتبرع بتمليكه المال، يكون إعانة له على الحرب، وأنه لا يجوز، ولقوله تعالى: "إنما ينهاكم الله عن الذين قاتلوكم في الدين وأخرجوكم من دياركم وظاهروا على إخراجكم أن تولوهم ومن يتولهم فأولئك هم الظالمون"۔فدل ذلك على أن من قاتلنا لا يحل بره، وهذا اتجاه الحنفية والمالكية۔
حاشية ابن عابدين (4/ 268):
(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي لعدم تفرغهم لعمله سلاحا لقرب زوالهم، بخلاف أهل الحرب زيلعي۔
(قوله: يكره لأهل الحرب) مقتضى ما نقلناه عن الفتح عدم الكراهة، إلا أن يقال: المنفي كراهة التحريم والمثبت كراهة التنزيه؛ لأن الحديد وإن لم تقم المعصية بعينه لكن إذا كان بيعه ممن يعمله سلاحا كان فيه نوع إعانة تأمل۔
الموسوعة الفقهية الكويتية (7/ 113):
حديث عمران بن حصين رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع السلاح في الفتنة ، والفتنة: الحروب الداخلية، وفتنة غير المسلمين أشد عليهم، فكان أولى ألا يباع لهم.
وقال الحسن البصري: لا يحل لمسلم أن يحمل إلى عدو المسلمين سلاحا يقويهم به على المسلمين، ولا كراعا، ولا ما يستعان به على السلاح والكراع۔
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
25/صفر /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |