84810 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
گاہک دوکاندار سے مہینے بھر کا سودا قرض لے کر جاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ مہینے کے آخر میں پیسوں کی ادائیگی کروں گا، چونکہ یہ سودا ادھار پر ہے، تو کیا دوکاندار کے لیےیہ جائز ہے کہ وہ جو چیز نقد دس روپے پر دیتا ہے وہ قرض دار کو دگیارہ روپے پر دے ؟ مثلاایک گاہک سودا اس وعدے پر لے جاتا ہے کہ مہینےكےآخر میں سارے پیسے دوں گا، اب وہ پورا مہینہ قرض پر سودا لے کر جاتا ہے اور اس کے ذمہ ایک لاكھ روپےکا کھاتہ بن جاتا ہے ۔ جب مہینہ ختم ہوجاتا ہے تو وہ اس ایک لاکھ روپے میں سے چالیس ہزار روپے دے دیتا ہے اور باقی ساٹھ ہزار اگلے مہینے کے لیے پھر بقایا کرجاتا ہے، یوں دوکاندار کے پیسے پھنس جاتے ہیں ،گاہک صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ اس مہینے پیسے نہیں ہيں۔ کیا دوکاندار کے لیے یہ بات جائز ہے کہ وہ اس گاہک کو دس روپے کی چیز بارہ روپے میں لگادے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
باہمی رضامندی سے سودے کی کوئی بھی قیمت رکھی جا سکتی ہے،ادھار کی صورت میں نقد والی قیمت سے زیادہ پر بھی معاملہ کرنا جائز ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ گاہک کو معلوم ہو کہ ادھار کی وجہ سے معمول سے زیادہ قیمت رکھی گئی ہے۔اگر گاہک کو اس کا علم نہیں ، بلکہ وہ یہی سمجھتا ہےکہ اس کو معمول کی قیمت پر اشیاء مل رہی ہیں ،جبکہ دکاندار نے ادھار کی وجہ سے از خود ریٹ بڑھا کر کھاتہ بنایا ہےتو یہ جائز نہیں ۔
حوالہ جات
الموسوعة الفقهية الكويتية»(9/ 268):
إذا باع سلعة بألف حالة أو ألف ومائة إلى سنة، وقد وجب عليه أحدهما، فإن عينا أحد الثمنين قبل الافتراق جاز البيع، وإن افترقا على الإبهام لم يجز........ وأما البيع مع التخيير بين السلع أو بين أثمان مختلفة للسلعة الواحدة، فهو فاسد عند الحنفية والشافعية والحنابلة أيضا للجهالة.
محمد سعد ذاكر
دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی
25/صفر /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |