03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جرگہ کےناجائزفیصلےکےنتیجے میں اپنےحصےسےزائدرقم اداکرنےوالےپربہنوں کاحصہ واجب نہیں
84776فیصلوں کے مسائلثالثی کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ             

ہم تین بھائی اور چار بہنیں ہیں، ہمارا تعلق قبائلی علاقوں سے ہے جہاں جرگہ نظام رائج ہے۔ بات یہ ہے کہ چونکہ میں بھائیوں میں بڑا ہوں، والد صاحب نے اپنی زندگی میں 20 لاکھ روپے بطور امانت میرے پاس رکھوائے تھے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد، میرے بھائیوں نے 2 کروڑ 40 لاکھ روپے کا دعویٰ کیا کہ والد صاحب نے آپ کے پاس 2 کروڑ 40 لاکھ روپے رکھوائے تھے، نہ کہ 20 لاکھ روپے۔ اس بارے میں جرگہ ہوا اور جرگہ والوں نے میرے خلاف 45 لاکھ روپے کا فیصلہ دیا، جس کے نتیجے میں مجھے 45 لاکھ روپے اپنے بھائیوں کو ادا کرنے پڑے۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ والد صاحب کی میراث میں چار بہنوں کا جو حصہ بنتا ہے، کیا وہ میرے ذمے ہے یا میرے بھائیوں کے ذمے؟ صورت حال یہ ہے کہ میں نے اپنے حصے سے زیادہ رقم اپنے بھائیوں کو جرگہ کے فیصلے کے نتیجے میں ادا کر دی ہے۔ تو کیا اب بھی چار بہنوں کا حصہ مجھ پر لازم ہوگا یا میرے بھائیوں پر؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرآپ نے واقعةًاپنے حصے سے زیادہ  رقم ادا کی ہےتو بہنوں کا حصہ شرعی طور پر آپ کے بھائیوں کی ذمہ داری ہے،  آپ کی نہیں ہے،آپ نےتوصرف اپناحصہ لیاہے،لہذاآپ کے بھائیوں پر لازم ہوگا کہ وہ بہنوں کوان کےحصے فراہم کریں۔تاہم اگرآپ نے فی الواقع اپنے پاس اپنے شرعی حصے سے زیادہ رقم روک رکھی ہوتوپھر اس زائدرقم میں بہنوں اورباقی ورثہ کا حصہ ہوگا،لہذا جوبھی واقعی صورتِ حال ہو اس پر عمل کریں اورآخرت کے عذاب سے اپنے آپ کو بچائیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ مسئلے میں اصولاً آپ کے بھائی مدعی ہیں اورآپ مدعی علیہ اورفیصلے کاشرعی اصول یہ ہے کہ پہلے مدعی سے گواہ طلب کئے جاتے ہیں اورنہ ہونے کی صورت میں مدعی علیہ سے قسم اورفیصلہ ان گواہوں اورقسم کے بنیاد پر کیاجاتاہے،بغیر گواہوں اورقسم کے کیا جانے والا فیصلہ جس میں خاص طورپر مالی جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہو شرعامعتبرنہیں۔لہذا اگرجرگے کے مذکورہ فیصلے میں یہ شرائط موجود نہیں تھیں تو وہ شرعا معتبرنہیں،اورجب جرگہ کا فیصلہ غیرمعتبرہوگا تو آپ کے شرعی حصے سے جوبھی زائد مال آپ سےاس کے نتیجے میں لیا گیا ہے اس کو آپ کی طرف لوٹانا بھائیوں پر واجب  ہوگا اوربہنوں کا حصہ بھی وہ دیں گے،کیونکہ آپ نے صرف نے اپنا حصہ رکھا ہوگا۔

حوالہ جات

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :

ألا لا تظلموا ألا لا يحلُّ مالُ امرئٍ إلَّا بطيبِ نفسٍ منه.الراويأنس بن مالكالمصدر مشكاة المصابيح.

وفی مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - (ج 6 / ص 460)

( وَيَحْرُمُ ) أَخْذُ الْمَالِ ( عَلَيْهِ ) أَيْ عَلَى الْمُدَّعِي ( دِيَانَةً إنْ كَانَ مُبْطِلًا ) فِي دَعْوَاهُ وَهَذَا عَامٌّ فِي جَمِيعِ أَنْوَاعِ الصُّلْحِ إلَّا أَنْ يُسَلِّمَهُ بِطِيبِ نَفْسِهِ فَيَكُونَ تَمْلِيكًا عَلَى طَرِيقِ الْهِبَةِ كَمَا فِي الْعِنَايَةِ .

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :

الصُّلحُ جائزٌ بينَ المسلمينَ إلَّا صلحًا أحلَّ حرامًا ، أو حرَّم حلالًا . وقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ : المسلمونَ على شروطِهم(أخرجه أبو داود،3594 ، وابن الجارود في المنتقى،1001، وابن حبان ،5091 )

وفی عون المعبود لأبى داؤد:

الْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْأَيْ ثَابِتُونَ عَلَيْهَا لَا يَرْجِعُونَ عَنْهَاقَالَ الْخَطَّابِيُّ   هَذَا فِي الشُّرُوطِ الْجَائِزَةِ فِي حَقِّ الدِّينِ دُونَ الشُّرُوطِ الْفَاسِدَةِ وَهُوَ مِنْ بَابِ مَا أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ الْوَفَاءِ بِالْعُقُودِ.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 418):

(قوله: ولو قضى بالجور إلخ) القضاء بخلاف الحق إما عن خطأ أو عمد وكل على وجهين إما في حقه تعالى أو حق العبد فالخطأ في حق العبد إما أن يمكن فيه التدارك والرد أو لا فإن أمكن بأن قضى بمال أو صدقة أو طلاق أو إعتاق ثم ظهر أن الشهود عبيد أو كفار أو محدودون في قذف يبطل القضاء ويرد العبد رقيقا، والمرأة إلى زوجها والمال إلى من أخذ منه.

وفی البحر الرائق باب التحکیم( ۷/۴۴،۴۵):

واذا کان التحکیم لیحکم علی خلاف مایراہ المحکم کان الصحیح عدم نفاذہ قضائہ .

وفی البحر الرائق باب التحکیم (۷/۴۴،۴۵):

واذا کان التحکیم لیحکم علی خلاف مایراہ المحکم کان الصحیح عدم نفاذہ قضائہ .

وفی الھندیة باب التحکیم( ۳/۳۷۵):

حکما رجلافقضی لاحدھما ثم حکماآخرینفذ حکم الاول ان کا ن جائزا عندہ وان کان جورا ابطلہ.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 61):

مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 44):

ولم يذكر محمد التعزير بأخذ المال وقد قيل روي عن أبي يوسف أن التعزير من السلطان بأخذ المال جائز كذا في الظهيرية وفي الخلاصة سمعت عن ثقة أن التعزير بأخذ المال إن رأى القاضي ذلك أو الوالي جاز ومن جملة ذلك رجل لا يحضر الجماعة يجوز تعزيره بأخذ المال اهـ.وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

29/02/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب