85298 | خرید و فروخت کے احکام | قرض اور دین سے متعلق مسائل |
سوال
میرے والد محترم محمد امین ورک صاحب نے چند سال قبل اپنے مکان کی تعمیر کے دوران پیسے کم ہونے کی وجہ سے اپنے دو بیٹو ں محمد عمر فاروق اور شہزاد احمد سے کچھ رقم بطور قرض لی تھی اور ایک اقرار نامہ دیگر بہنوں اور بھائیوں سے دستخط کرا لیا تھا۔ والد صاحب کا کہنا ہے ،کہ اگر میں اپنی زندگی میں یہ قرض ادا کردوں تو اقرار نامہ کالعدم سمجھا جائے گا ۔ اگر میں اپنی زندگی میں یہ قرض ادا نہ کر سکا تو میرے مرنے کے بعد میرا مکان فروخت کر کے پہلے یہ قرض ادا کیا جائے،اس کے بعد شریعت کے مطابق جائیداد کی رقم تقسیم کی جائے۔ دونوں بھائیوں نے والد صاحب کو جو رقم قرض دی تھی ،وہ انہوں نے مختلف ذرائع سے جمع کر کے دی تھی ۔ کچھ لوگ اعتراض کر رہے ہیں کہ اس اقرار نامہ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ۔ اقرار نامہ کی کا پی اس لیٹر کے ساتھ منسلک ہے۔
میں درج بالا تحریر کی روشنی میں یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں ۔ کہ شریعت اس قسم کے اقرار نامہ کو وراثت کے مراحل میں کیا اہمیت دیتی ہے۔نیز قرض دی گئی رقم پر کسی بھی شکل میں اضافی رقم طلب کرنا جائز ہے یا نہیں ۔ مثلا اس وقت سونے کی کتنی مقدار اس مال سےخریدی جا سکتی تھی اور اب وہ سونا کتنی مالیت کا ہوگا ۔
والد محترم شریعت کے مطابق عمل در آمد کے خواہاں ہیں ۔ شریعت ان کیلئے سب سے اہم ہے ۔نیز کوئی داماد اس معاملہ میں کس حد تک مداخلت کر سکتا ہے۔ جائیداد کے مالک کے وصا ل کے بعد ورا ثت کے عمل کو کتنے وقت کے اندر مکمل کر لینا افضل ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ اگر والد نے اپنے بیٹوں سے رقم بطور قرض لی ہے تو اس کے ذمہ لازم ہے کہ وہ زندگی میں ہی اس قرض کو ادا کر دے ، قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود ادا کرنے میں غفلت ناجائز ہے، لیکن اگر اس نے زندگی میں قرض ادا نہیں کیا تو اس کے وصال کے بعد والد کی میراث میں سے سب سے پہلے اس کی تجہیزوتکفین کا معتدل خرچہ نکالا جائے ،بعد میں اگر رقم بچ جائےتو اس سے ان بیٹوں کا قرض ادا کیا جائے گا جنہوں نے والد صاحب کو قرض دیا تھا۔ مذکورہ اقرار نامہ پر چونکہ ورثہ کے دستخط موجود ہیں اور وہ اس کو والد صاحب کا اقرار نامہ تسلیم کرتے ہیں تو یقینا معتبر ہوگا ۔اس کے بعد اگر اس نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال سے اس کو بھی پورا کیا جائے ، اس کے بعد اگر کچھ رقم بچ جائے تو اس کو ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے۔
باقی جو رقم انہوں نے اپنے والد صاحب کو بطور قرض دی تھی اس پر اضافی رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ، کیونکہ قرض پر اضافی رقم کا مطالبہ کرنا سود ہے جو کہ شریعت میں حرام ہے۔ البتہ چونکہ روپے کی قدر بہت زیادہ گرتی رہتی ہے، اگر والد صاحب اپنی طرف سے قرض دینے والے بیٹوں کو ان کی رقم سے کچھ زیادہ دینا چاہے تو جائز بلکہ باعث ثواب ہے ،اگر چہ بیٹوں کو اضافی رقم کے مطالبے کا حق نہیں ہے۔
مالک جائیداد کے وصال کے بعد جتنا جلدی ہو سکے میراث کو تقسیم کرنا افضل ہے ۔ اس کے علاوہ داماد کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی اور کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔ سسر کی زندگی میں تو اس کی اولاد کو بھی حق نہیں اور وفات کے بعد اولاد اپنے حصے تک حقدار ہے۔ داماد وارثوں میں شامل نہیں ، لہذا میراث میں اس کا کوئی تعلق نہیں ۔
حوالہ جات
القرآن الکریم ( آل عمران ، رقم الآیۃ 130):
]یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(
السنن الكبرى للبيهقي (5/ 573):
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ , وأبو سعيد بن أبي عمرو قالا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب , ثنا إبراهيم بن منقذ , حدثني إدريس بن يحيى , عن عبد الله بن عياش , قال: حدثني يزيد بن أبي حبيب , عن أبي مرزوق التجيبي , عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا " موقوف
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 396):
وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية.
السراجی فی المیراث (5،6 🙁
الحقوق المتعلقہ بترکۃ المیت :قال علماؤنارحمہم اللہ تعالی تتعلق بترکۃ المیت حقوق اربعۃ مرتبۃ الاول یبدأبتکفینہ وتجہیزہ من غیرتبذیرولاتقتیر،ثم تقصی دیونہ من جمیع مابقی من مالہ ثم تنفذوصایاہ من ثلث مابقی بعدالدین ،ثم یقسم الباقی بین ورثتہ بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ۔
عطاء الر حمٰن
دارالافتاءجامعۃالرشید ،کراچی
03 /جمادی الاولٰی /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عطاء الرحمن بن یوسف خان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |