84880 | خرید و فروخت کے احکام | دین )معاوضہ جو کسی عقدکے نتیجے میں لازم ہوا(کی خرید و فروخت |
سوال
ایک شخص محمد بشیر نے عبدالودود کو اپنا مکان باسٹھ لاکھ روپے کے عوض بیچنے کا وکیل بنایا، گاہک ملنے پر وکیل نے موکل سے رابطہ کیا کہ آپ کی ڈیمانڈ کے مطابق گاہک مل رہا ہے، موکل نے کہا اس شرط پر بیچ دو کہ دو ماہ تک مکان کا کرایہ میں وصول کروں گا اور اس کے بعد مشتری یعنی خریدار وصول کرے گا۔ نیز مشتری کے ساتھ ان شرائط کے ساتھ بیع کی جائے کہ پانچ لاکھ روپیہ مشتری نقد ادا کرے گا، بیس لاکھ روپیہ دو ماہ بعد مکان کا قبضہ لیتے وقت ادا کرے گا اور بقیہ سینتیس لاکھ روپیہ چھ ماہ کے اندر اندر ادا کرے گا، وکیل نے ان شرائط کو قبول کر لیا اور مکان فروخت کر دیا اور یہ بھی کہا کہ چھ ماہ کے اندربقیہ رقم کی ادائیگی کی ذمہ داری میری ہو گی اور بہرصورت بقیہ رقم مدت مقررہ کے اندر ادا کی جائے گی، لیکن وکیل نے ان تمام شرائط کی خلاف ورزی کی، خریدوفروخت کے وقت پانچ لاکھ کی ادائیگی کی بجائے تین لاکھ روپیہ ادا کیا، بیس لاکھ روپیہ دو ماہ کے اندر ادا کرنے کا طے کیا کہ یہ رقم مشتری سے وکیل وصول کرے گا اور موکل گھر کا قبضہ دے گا، وکیل نے اس کی بھی خلاف ورزی کی، جبکہ موکل نے دوماہ کے اندر گھر کا قبضہ دے دیا تھا، خلاصہ یہ کہ اب تک خریدار نے کل بتیس لاکھ روپیہ ادا کیا ہے، جبکہ خریدوفروخت کو دس ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اب سوالات درج ذیل ہیں:
- اب تک مشتری نے جتنا کرایہ وصول کیا ہے، کیا اس میں موکل کا حق ہے؟ کیونکہ خریدار نے ابھی تک مکمل رقم ادا نہیں کی۔
- کیا اس مکان کو موکل بائع کسی اور کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے؟ کیا ان تمام شرائط کی خلاف ورزی کی وجہ سے بائع سودا کینسل کر سکتا ہے؟ کیونکہ بقیہ رقم وصول ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔
وضاحت: سائل نے بتایا کہ وکیل نے رقم ادا کرنے کی ضمانت لی تھی، باقی اس کے علاوہ خریدوفروخت میں ایسی کوئی شرط نہیں تھی کہ اگر وقت مقررہ پر رقم ادا نہ کی تو ہمارا سود کینسل ہے۔نیزیہ بھی بتایا کہ دوماہ کرایہ لینے کی شرط معاملہ کرتے وقت لگائی تھی، البتہ خریدوفروخت کے معاہدہ میں اس شرط کو نہیں لکھا گیا تھا، اس شرط کے مطابق دوماہ کا کرایہ میں نے وصول کیا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جوابات سے پہلے بطورِ تمہید دو باتیں جاننا ضروری ہیں:
پہلی بات: خریدوفروخت کے معاملے میں سودا ہوتے ہی بیچی گئی چیز بیچنے والے کی ملکیت سے نکل کر خریدار کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور اس کے بعد خریدار کو صرف ثمن (خریدار اور فروخت کنندہ کے درمیان طے شدہ قیمت) کی وصولی کا حق باقی رہ جاتا ہے، البتہ قیمت وصول ہونے تک فروخت کنندہ کو وہ چیز اپنے پاس روکنے کا حق باقی ہوتا ہے اور اپنے پاس روکنے کی صورت میں بھی بیچنے والے کو اس چیز سے نفع اٹھانے اور اس کو استعمال کرنے کا حق نہیں ہوتا، کیونکہ شرعی طور پر وہ چیز خریدار کی مملوک ہوتی ہے۔
دوسری بات: خریدوفروخت کے معاملے میں اگر فریقین میں سے کسی فریق کی طرف سے کوئی ایسی شرط لگا دی جائے جس میں اس کا فائدہ ہو تو ایسی شرط سے خریدوفروخت کا معاملہ شرعاً فاسد اور ناجائز ہو جاتا ہے اورفریقین کے ذمہ ایسے معاملے کو ختم کرنا (Cancel) ضروری ہو جاتا ہے، لہذا ایسے معاملے کو فریقین میں سے کوئی بھی شخص ختم کر سکتا ہے۔البتہ ختم کرنے سے پہلے اگر اس چیز پر خریدار قبضہ کر چکا ہو تو شرعاً ایسے معاملے میں بھی مبیع میں خریدار کی ملکیت ثابت ہو جاتی ہے، اگرچہ معاملہ ناجائز ہونے کی وجہ سے خریدار کو اس سے نفع اٹھانے کا حق حاصل نہیں ہوتا اور اگر اس نے کوئی نفع (آمدن) حاصل کیا ہو تو خریدار کے ذمہ شرعا اس کو صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
- سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق چونکہ فروخت کنندہ نے مکان کی خریدوفروخت کا معاملہ کرتے وقت یہ شرط لگائی تھی کہ دو ماہ تک مکان کا کرایہ (44000روپے) وہ وصول کرے گا، جبکہ شرعی اعتبار سے یہ شرط فاسد اور ناجائز ہے، کیونکہ خریدوفروخت کا معاملہ ہوتے ہی بیچی گئی چیز خریدار کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اس کے بعد اس کے تمام منافع کا حق دار خریدار ہوتا ہے، لہذا فروخت کنندہ کا دوماہ کا کرایہ لینا حق نہیں تھا، اس لیے اپنے نفع کی خاطر مذکورہ شرط لگانے کی وجہ سے خریدوفروخت کا معاملہ شرعا فاسد اور ناجائز ہو گیا اور تمہید میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق ایسی خریدوفروخت میں بھی چیز پر قبضہ کرنے سے خریدار کی ملکیت آجاتی ہے، البتہ خریدار کے لیے شرعاً اس مکان کو استعمال کرنے اور کرایہ وغیرہ پر دینے کا حق نہیں تھا، لیے ابھی تک خریدار نے جتنا کرایہ وصول کیا ہے اگرچہ شرعی اعتبار سے وہ اس کا مالک ہے، مگر چونکہ یہ ملکیت فاسد اور ناجائز خریداری کی وجہ سے آئی ہے، اس لیے حاصل شدہ تمام کرایہ کو صدقہ کرنا لازم ہے۔
- مذکورہ صورت میں چونکہ فاسد اور ناجائز خریدوفروخت ہوئی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ فریقین کے ذمہ اس کو ختم کرنا ضروری ہے اور فریقین میں سے کوئی بھی شخص یک طرفہ طور پر بھی اس کو ختم کر سکتا ہے، اس لیے فروخت کنندہ اس خریدوفروخت کو ختم کر دے، اس کے بعد دوبارہ اس شخص کو یا کسی بھی دوسرے شخص کو یہ مکان بیچنے میں وہ شرعاً خود مختار ہے، البتہ اس مکان کا قبضہ لینے کے لیے پہلے خریدار سے لی گئی رقم اس کو واپس کی جائے اور پھر اس مکان کا قبضہ لیا جائے۔
حوالہ جات
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (6/ 282) دار الكتب العلمية، بيروت:
قال أصحابنا رحمهم الله: وللبائع حق حبس المبيع لاستيفاء الثمن إذا كان الثمن مالا؛ لأن البائع عين حق المشتري في المبيع، فيجب على المشتري تعيين حق البائع في الثمن تحقيقا للتساوي بينهما، ثم تعيين النقود بالقبض، فيجب تقديم القبض في الثمن تعيينا لحق البائع.
الھدایۃ: (48/3) ط: دار احیاء التراث العربی- بيروت:
وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين، أو للمعقود عليه، وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع؛ لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 52) دار احياء التراث العربي - بيروت:
قال: "ولكل واحد من المتعاقدين فسخه" رفعا للفساد، وهذا قبل القبض ظاهر؛ لأنه لم يفد حكمه فيكون الفسخ امتناعا منه، وكذا بعد القبض إذا كان الفساد في صلب العقد لقوته، وإن كان الفساد بشرط زائد فلمن له الشرط ذلك دون من عليه لقوة العقد، إلا أنه لم تتحقق المراضاة في حق من له الشرط............... قال: "وليس للبائع في البيع الفاسد أن يأخذ المبيع حتى يرد الثمن"؛ لأن المبيع مقابل به فيصير محبوسا به كالرهن.
حاشية ابن عابدين (5/ 169) وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية الكويت:
(قوله فيجب رد عين الربا لو قائما لا رد ضمانه إلخ) يعني وإنما يجب رد ضمانه لو استهلكه، وفي التفريع خفاء، لأن المذكور قبله أن البيع الفاسد من جملة الربا، وإنما يظهر لو ذكر قبله أن الربا من جملة البيع الفاسد، لأن حكم البيع الفاسد أنه يملك بالقبض ويجب رده لو قائما ورد مثله أو قيمته لو مستهلكا.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 73) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(المادة 371) البيع الفاسد يفيد حكما عند القبض. يعني أن المشتري إذا قبض المبيع بإذن البائع صار ملكا له فإذا هلك المبيع بيعا فاسدا عند المشتري لزمه الضمان. يعني أن المبيع إذا كان من المكيلات لزمه مثله وإذا كان قيميا لزمته قيمته يوم قبضه.
(المادة 372) لكل من المتعاقدين فسخ البيع الفاسد إلا أنه إذا هلك المبيع في يد المشتري, أو استهلكه , أو أخرجه من يده ببيع صحيح , أو بهبة من آخر أو زاد فيه المشتري شيئا من ماله كما لو كان المبيع دارا فعمرها , أو أرضا فغرس فيها أشجارا , أو تغير اسم المبيع بأن كان حنطة فطحنها وجعلها دقيقا ; بطل حق الفسخ في هذه الصور.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 53) دار احياء التراث العربي - بيروت:
قال: "ومن اشترى جارية بيعا فاسدا وتقابضا فباعها وربح فيها تصدق بالربح ويطيب للبائع ما ربح في الثمن" والفرق أن الجارية مما يتعين فيتعلق العقد بها فيتمكن الخبث في الربح، والدراهم والدنانير لا يتعينان على العقود فلم يتعلق العقد الثاني بعينها فلم يتمكن الخبث فلا يجب التصدق، وهذا في الخبث الذي سببه فساد الملك.
أما الخبث لعدم الملك فعند أبي حنيفة ومحمد يشمل النوعين لتعلق العقد فيما يتعين حقيقة، وفيما لا يتعين شبهة من حيث إنه يتعلق به سلامة المبيع أو تقدير الثمن، وعند فساد الملك تنقلب الحقيقة شبهة والشبهة تنزل إلى شبهة الشبهة، والشبهة هي المعتبرة دون النازل عنها.
فقہ البیوع للشیخ محمد تقی العثمانی(963/2)مكتبة معارف القرآن كراتشي:
أما النقطة الرابعة من أن البيع الفاسد يفيد الملك بعد القبض ............وأما أنه ملك خبيث فلأنه حصل بطريق غير مشروع، فلا يحل له النتفاع به بأكل أوشرب أو لبس، ولايجوز للمشتري التصرف فيه.
فقہ البیوع للشیخ محمد تقی العثمانی(1050/2)مكتبة معارف القرآن كراتشي:
حكم المشترى في البيع الفاسد: إن باع إلى ثالث ماشتراه شراء فاسدا، لاينقض ذلك البيع؛ لأنه تعلق به حق العبد وهو المشتري منه، ولكن لايطيب له ماربح فيه، بل يجب عليه أن يتصدق به. مثاله: لواشترى ثوبا بألف شراء فاسدا وقبضه، ثم باع ذلك الثوب بألف ومائتين فلايطيب له مائتان، بل يجب عليه أن يتصدق بها.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
2/ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |