03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
داسوڈیم کے آفیسرکالونی میں نمازِ جمعہ قائم کرنے کاحکم
84875نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

قدیم زمانے سے "چو جنگ بالا" ایک دیہاتی علاقہ ہے۔ اس کے قریب نصف کلومیٹر فاصلے پر ایک دوسری آبادی "چو جنگ بائن" کے نام سے موسوم ہے، اور اس کے مزید نصف کلومیٹر پر تیسری آبادی "کہوشی" کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ان تینوں جگہوں کے کل گھرانے تقریباً 100 ہیں۔

اب "چو جنگ بالا" میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ (داسو ڈیم) کے منصوبوں میں سے ایک یہ ہے کہ واپڈا نے ایک آفیسر کالونی بنائی ہے، جس میں واپڈا کے مختلف شعبوں کے دفاتر ہیں۔ ان دفاتر میں اردگرد کے علاقوں کے لوگ ڈیوٹی کے لیے آتے جاتے ہیں، اور کچھ باہر کے ملازمین بھی اس کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔ کالونی میں ڈسپنسری اور سیکیورٹی کے اہلکار بھی موجود ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس کالونی میں ابھی تک مسجد نہیں بنائی گئی ہے۔ قدیم آبادی بھی متاثر ہو کر کچھ گھرانے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ یہ تینوں علاقے داسو کے دیہات ہیں، اور اب تک ان میں شہری قوانین اور رسم و رواج قائم نہیں ہوئے ہیں۔

قابلِ استفساریہ ہے کہ کیا اس کالونی کے کسی کوارٹر کو نمازِ جمعہ کے لیے منتخب کر کے فقہ حنفی کے مطابق نمازِ جمعہ اس میں ادا کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ حضراتِ حنفیہ رحمہم اللہ کے ہاں صحتِ جمعہ کا مدار اس بات پر ہے کہ متعلقہ جگہ شہر ہو، فناء شہر ہو، یا جملہ ضروریات پوری کرنے میں شہر کی طرح ہو۔ چونکہ چھوٹے گاؤں میں جملہ ضروریات کا انتظام نہیں ہوتا، اس لیے وہاں جمعہ قائم کرنا حنفیہ کے ہاں جائز نہیں ہوتا۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

داسو ڈیم کی آفیسر کالونی کے جو حالات سوال میں درج ہیں، ان کی رو سے نہ یہ شہر ہے، نہ فناءِ شہر ہے، اور نہ ہی قصبہ کبیرہ کی تعریف اس پر صادق آتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ جگہ میں جمعہ قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ وہاں جمعہ کے روز بھی باجماعت نمازِ ظہر ادا کی جائے، جمعہ نہ پڑھایا جائے۔

حضرت مولاناظفراحمد عثمانی صاحب "امدادالاحکام" میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:

"اصل یہ ہے کہ گاؤں میں جمعہ صحیح نہیں اورشہراورقصبات میں صحیح ہے قصبہ کی تعریف ہمارے عرف میں یہ ہے کہ جہاں آبادی چارہزارکے قریب یا اس سے زیادہ ہو، اورایسا بازارموجود ہو جس میں دکانیں چالیس پچاس متصل ہوں اوربازار روزانہ لگتاہو، اوراس بازارمیں ضروریات روز مردہ ملتی ہوں ،مثلاً جوتہ کی دکان بھی ہو،اورکپڑے کی بھی عطار بھی ہو ،بزارکی بھی ،غلہ کی بھی اوردودھ گھی کی بھی ،اوروہاں ڈاکٹریاحکیم بھی ہوں،معمارومستری بھی ہوں وغیرہ وغیرہ اوروہاں ڈاکخانہ بھی ہو اورپولیس تھانہ یا چوکی بھی ہو،اوراس میں مختلف محلے مختلف ناموں سے موسوم ہوں،جس بسی میں یہ شرائط موجود ہوں گے وہاں جمعہ صحیح ہوگا،ورنہ صحیح نہ ہوگا"(امدادالاحکام:2/756)

دارلعلوم دیوبند کے ایک فتوی میں قریہ کبیرہ کی تعریف درج ذیل کی گئی ہے:

"قریہ کبیرہ کے لیے کم ازکم تین چار ہزار کی آبادی والا گاوٴں ہو جہاں مختلف ومتعدد گلیاں ہوں، اتنی کثرت سے دوکانیں ہوں کہ وہاں کے لوگوں کی روز مرہ کی ضروریات پوری ہوجاتی ہوں، وہاں مدنیت بھی ہو([1])"

مذکورہ بالاحوالہ جات کی روشنی میں مذکورہ آفیسرکالونی پرقریہ کبیرہ کی تعریف صادق نہیں آتی لہذا وہاں جمعہ کے بجائے ظہرکی نمازپڑھی جائے۔

 https://darulifta-deoband.com/home/ur/jumuah-eid-prayers/151253 (1)

حوالہ جات

وفی رد المحتار - (ج 6 / ص 44)

تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم : هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه ، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة ؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر ، وهذا إذا لم يتصل به حكم ، فإن في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقا على ما قال السرخسي ا هـ فافهم والرستاق القرى كما في القاموس

وفی رد المحتار - (ج 6 / ص 44)

لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة ؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر

الدر المختار للحصفكي - (ج 2 / ص 148)

(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء: الاول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه

فتوى أكثر الفقهاء.مجتبى لظهور التواني في الاحكام، وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض يقدرعلى إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى.وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي، وإذا اتصل به الحكم صارمجمعا عليه، فليحفظ (أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أولا، كما حرره ابن الكمال وغيره (لاجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل، والمختار للفتوى تقديره بفرسخ، ذكره الولوالجي.(و) الثاني: (السلطان) ........(و) الثالث: (وقت الظهر .......(و) الرابع: (الخطبة فيه) فلو خطب قبله وصلى فيه لم تصح.(و) الخامس: (كونها قبلها) لان شرط الشئ سابق عليه ..........(و) السادس: (الجماعة) .........(و) السابع: (الاذن العام) من الامام، وهو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين، كافي.فلا يضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة، لان الاذن العام مقرر لاهله وغلقه لمنع العدو لا المصلي، نعم لو لم يغلق لكان أحسن كما في مجمع الانهر معزيا لشرح عيون المذاهب،قال: وهذا أولى مما في البحر والمنح، فليحفظ

الدر المختار للحصفكي ج: 2 ص: 150

(فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أولا، كما حرره ابن الكمال وغيره (لاجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل، والمختار للفتوى تقديره بفرسخ، ذكره الولوالجي

رد المحتار - (ج 6 / ص 46)

اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة وكذا محرر المذهب الإمام محمد وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة ميل ميلان ثلاثة فرسخ فرسخان ثلاثة سماع الصوت سماع الأذان والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغرهبيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منهما على فرسخ من كل جانب ، نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار ا هـ

الموسوعة الفقهية الكويتية - (ج 28 / ص 200)

من كانوا يقيمون في قرية نائية ، لا يكلّفون بإقامة الجمعة ، وإذا أقاموها لم تصحّ منهم . قال صاحب البدائع : المصر الجامع شرط وجوب الجمعة ، وشرط صحّة أدائها عند أصحابنا ، حتّى لا تجب الجمعة إلاّ على أهل المصر ومن كان ساكناً في توابعه ، وكذا لا يصحّ أداء الجمعة إلاّ في المصر وتوابعه .فلا تجب على أهل القرى الّتي ليست من توابع المصر ، ولا يصحّ أداء الجمعة فيها .

الفقه الإسلامي وأدلته - (ج 2 / ص 425)الحنفیة

والخلاصة: تجب الجمعة على من يسكن المصر، أو ما يتصل به، فلا تجب على أهل السواد (القرى) ولو كان قريباً، وتجب الجمعة على مسافر نوى الإقامة لمدة خمسة عشر يوماً، وليس الاستيطان (دوام الإقامة) شرطاً لوجوب الجمعة.

الفقه الإسلامي وأدلته - (ج 2 / ص 426)المالکیة

وتجب الجمعة على مقيم ببلد الجمعة، وعلى المقيم بقرية أو خيمة بعيدة عن بلد الجمعة بنحو فرسخ أو

ثلاثة أميال وثلث، لا أكثر، وتقدر المسافة من المنارة التي في طرف البلد. ولا يشترط في بلد الجمعة أن يكون مصراً، فتصح في القرية، وفي الأخصاص (وهي بيوت الجريد أو القصب)، ولا تصح ولا تجب في بيوت الشعر؛ لأن الغالب عليهم الارتحال، إلا إذا كانوا قريبين من بلد الجمعة، كما لا تصح ولا تجب على من أقام مؤقتاً في مكان ولو لشهر مثلاً، إذ لا بد من الاستيطان: وهو الإقامة في بلد على التأبيد.

وراجع لمزید التفصیل ”أوثق العری في تحقیق الجمعة في القری“للشیخ مولانا رشید أحمد الجنجوھي رحمہ اللہ تعالی وھي رسالة جامعة بین الأدلة الحدیثیة وأقوال الفقہاء، مفیدة للغایة.وامدادالاحکام ج:١ من صفحہ ۷۲۵الی۷۳١،واحسن الفتاوی ج:۴ و رسالة النخبة فی مسئلة الجمعہ والخطبہ وتتمتھا ج:١۰ص۳۹٦الی۴۲١واعلاء السنن ج۵ص ۲۲۷۴تا۲۲۹۹.

سیدحکیم شاہ عفی عن

دارالافتاء جامعۃ الرشید

 03/04/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب