03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مہر کی کچھ مقدار کی معافی میں شوہر کے قول کا اعتبار
84911نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

 ایک خاتون کا انتقال ہوا ہے ،اس کے ترکہ میں تین تولہ سونا ہے،ایک تولہ باپ کے گھر سے اور دو تولہ شوہر نے نکاح کے وقت طے کیا تھا،اب مرحومہ کا شوہر کہتا ہے کہ مرحومہ کو ایک تولہ بنا کردیا تھا،اور ایک تولہ مرحومہ نے مجھے معاف کیا تھا،جبکہ معاف کرنے کا علم مرحومہ کے والد کو نہیں ہے ،نہ بیٹی نے اس بات کا اظہار کیاتھا اور نہ مرحومہ کے شوہر نے۔ کیا مرحومہ کے شوہر کے کہنے کے مطابق وہ ایک تولہ معاف سمجھاجائے گا یا ترکہ میں شامل ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مہر عورت کا حق ہوتا ہے، جو شوہر کے ذمہ واجب ہوتا ہے، اگر صاحبِ حق اپنا حق زبانی یا تحریری طور پر معاف کردے، تو وہ حق معاف ہوجاتا ہے،لہذاصورت مسئلہ میں اگر ورثہ کو شوہر کی بات پر یقین ہے تو پھر یہ معاف سمجھا جائے گا،اور اگر ان  کی جانب سے مطالبہ ہوتوشوہرمہر کی معافی پر دو شرعی گواہ یا کوئی مستند تحریری ثبوت پیش کرے،اس صورت میں اس ایک تولے کے بقدر مہر کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی ،اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو پھر ادائیگی ضروری ہے،اوریہ ایک تولہ سونا بھی بیوی کے مہر کا حصہ بن کر ترکہ میں شامل ہوجائے گا اور ورثہ میں اپنے اپنے حصے کے مطابق تقسیم ہوگا۔

حوالہ جات

وفی الدر(3/113):

(وصح حطھا )لکلہ أو بعضہ (عنہ) قبل أو  لا.

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

03/ ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب