84933 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماءِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
میراایک بیٹانافرمان ہے،میں اس نافرمان بیٹے کو اپنے مکان سے نکالنا چاہتا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ تیسرے نمبر والے بیٹے کی منگنی کردی ہے اور اب اس کی شادی کی تیاری کرنی ہے۔ مکان میں صرف تین کمرے ہیں، اور چوتھا کمرہ نہیں ہے۔ نافرمان بیٹے کی عمر 36 سال ہے، اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، اور اس کی اہلیہ بھی ہے۔ اس کے پاس پڑوس میں اپنا مکان ہے جو زیرِ تعمیر ہے۔ وہ مطالبہ کرتا ہے کہ جتنی رقم اس نے تعمیری کام میں اِس میرے مکان میں خرچ کی ہے، وہ اسے واپس کی جائے، اور جب تک رقم واپس نہیں ہوگی، وہ مکان نہیں چھوڑے گا۔ کیا بیٹے کی رقم واپس کرنا میرے ذمہ ہے، جبکہ کچھ رقم اس نے اجازت سے اور کچھ بغیر اجازت کےخرچ کی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جو رقم مذکوربیٹے نے بغیر اجازت خرچ کی ہے، اُس کی واپسی کا مطالبہ وہ نہیں کر سکتا۔ لیکن جو رقم اُس نے آپ کی اجازت سے خرچ کی ہے، اس کی واپسی کا مطالبہ وہ کر سکتا ہے،اگرچہ اس نے قرض کی تصریح نہ بھی کی ہو،کیونکہ اس کی یہ نیت تو ضرورہوگی کہ میں اسی مکان میں رہوں گا اورمجھے نکالا نہیں جائے گا۔اگرپہلے اس کو اس بات کا علم ہوتا کہ مجھے نکالا جائے گا تو وہ کبھی خرچ نہ کرتا،لہذا والدکی اجازت سے خرچ کی صورت میں دیانةً اس کو واپسی کی مطالبے کا حق حاصل ہے۔
واضح رہے کہ والدین کی نافرمانی اور ان کو تکلیف دینا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے، اور والدین کی نافرمانی، بدکلامی یا ان کو تکلیف دینے پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ لہٰذا مذکورہ بیٹے پر لازم ہے کہ وہ ندامت کے ساتھ توبہ کرے، استغفار کرے اور فوری طور پر اپنے والد صاحب سے معافی مانگے۔
تاہم والد کو چاہیے کہ اپنے بیٹے کو وعظ و نصیحت کے ذریعے اصلاح کی کوشش کرے، کیونکہ نافرمان بیٹا سدھر سکتا ہے اور نیک بن سکتا ہے۔ دعا اور حکمت سے اصلاح کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ لہٰذا مسئولہ مسئلہ میں اگر والد بیٹے کو ضرورت کے تحت نکال رہا ہے اور محروم کرنے کا ارادہ نہیں، تو یہ والد کے لیے جائز ہے۔ بیٹے کو بھی چاہیے کہ والد کی بات مانے اور ضد نہ کرے، خاص طور پر جبکہ اس کے پاس پڑوس میں اپنا مکان بھی موجود ہے جو زیر تعمیر ہے۔ اور اگر والد کا ارادہ بیٹے کو جائیداد سے محروم کرنے کا ہو تو والد کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے مزید خرابیاں پیدا ہوں گی اور بیٹے کی نافرمانی بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے۔
اگر سمجھانے کے نتیجے میں مذکورہ بیٹا اپنے والد سے معافی مانگ لے تو والد کو معاف کر دینا چاہیے اور جائیداد میں سے حصہ بھی دے دینا چاہیے۔ لیکن اگر بیٹا بدستور اپنے رویے پر قائم رہے، تو ایسی صورت میں جائیداد کی تقسیم کے وقت والد کو چاہیے کہ وہ بیٹے کو مکمل طور پر محروم کرنے کے بجائے صرف اتنا مال دے جو اُس کی ضرورت کے مطابق ہو، اور ضرورت سے زائد نہ دے۔ اگر والد معاف کر دیتا ہے، تو اپنی جائیداد کو شرعی طریقے سے اولاد میں تقسیم کرے، یعنی اپنی تمام اولاد کو برابر حصہ دے۔ چھوٹے بیٹے کا حصہ بھی باقی تین بیٹوں اور بیٹیوں کے برابر ہونا چاہیے، نہ کسی کو محروم کرے اور نہ بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ وہ گناہ گار ہو گا۔
البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو شرافت، دینداری، غریب ہونے یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر دوسروں کی نسبت کچھ زیادہ دینا چاہے، تو شریعت میں اس کی اجازت ہے۔
نیز اگروالد نے اس مکان کے علاوہ مذکورہ بیٹے کی دیگر جائیداد وغیرہ سے اتنی مدد کر دی ہو جو اس مکان میں دیگر اولاد کو مل رہی ہے، تو پھر اگر والد اس مکان میں مذکورہ بیٹے کا حصہ نہ رکھے، توپھر والد گناہ گار نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
وفی موسوعة القواعد الفقهيه :
"لا رجوع فيما تبرّع به عن غيره ،التّبرّع: هو إعطاء مجّاني دون مقابل."(موسوعة القواعد الفقهية،8/ 868)
وفی جامع الفصولين :
"عمر دار امرأته فمات وتركها وابناً فلو عمرها بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها فتغرم حصة الابن.
ولو عمرها لنفسه بلا إذنها فالعمارة ميراث عنه وتغرم قيمة نصيبه من العمارة وتصير كلها لها. ولو عمرها لها بلا إذنها قال النسفي: العمارة كلها لها ولا شيء عليها من النفقة فإنه متبرع. وعلى هذا التفصيل عمارة كرم امرأته وسائر أملاكها."(جامع الفصولين 2/ 119)
المبسوط للسرخسي (5/ 223)
فإن كان مال الولد غائبا أمر الأب بأن ينفق عليه من ماله على أن يرجع في مال الولد إذا حضر ماله لكنه إن أشهد فله أن يرجع في الحكم، وإن أنفق بغير إشهاد لكن على نية الرجوع فله أن يرجع فيما بينه وبين الله تعالى وفي الحكم ليس له ذلك؛ لأن الظاهر أنه يقصد التبرع بمثل هذا، والقاضي يتبع الظاهر فأما فيما بينه وبين الله تعالى فله أن يرجع؛ لأن الله تعالى عالم بما في ضميره.
قال اللہ تعالی:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا(الإسراء: 23، 24)
مشکاۃ المصابیح( باب البر والصلۃ، ج: 2، ص: 421، ط: قدیمی):
عن أبي أمامة، أنّ رجلا قال: يا رسول اللّه، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: «هما جنتك ونارك.(
وفیہ أیضا:
عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان". (مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، ص: 421، ط: قدیمی)
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
09/ ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |