03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیا تجدید ایمان کے لیے کفریہ کلمہ سے توبہ میں اس کلمہ کا دہرانا لازم ہے؟
84979ایمان وعقائدکفریہ کلمات اور کفریہ کاموں کابیان

سوال

  کسی سے چار یا پانچ کفریات صادر ہو گئےجو اس کو یاد   ہیں ،پھر  اس نے ان الفاظ سے توبہ کی  کہ یا اللہ!آج تک جتنے بھی کفریات صادر ہو ئےہیں، ان سب سے توبہ کرتا ہوں، کلمہ طیبہ پڑھ کردوبارہ نکاح کرلیا اور حج بھی کیا، تو کیا اس  طریقہ پر توبہ کافی ہے اورجو  نکاح  کیا وه درست ہے؟ یا ہر ہر جملہ سے توبہ کرے اور ہر بار کلمہ پڑھے؟ نیز نکاح اور حج کا حکم کیا  ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ  ایسے کفریہ کلمات جن سےدینِ اسلام  کے بنیادی عقائد و احکام جیسے توحید ، رسالت اور آخرت  وغیرہ کا انکارلازم آئے تو  ان کلمات کو دہرائے بغیر ان سے توبہ کرنا اور ان کفریہ عقائد سے براءت اختیار کرنا ضروری ہے، ایسی صورت میں کفریہ عقائد کو ترک  کیے بغیر صرف زبانی طورپر توبہ کرنے اور تجدیدِ ایمان کی نیت کے بغیر عام عادت کے مطابق کلمہ طیبہ پڑھنے سے  توبہ اور تجدید ایمان نہیں ہوتی ،اورنہ ایسی حالت میں کوئی نیک عمل قبول ہوتا ہے۔

چنانچہ صورتِ مذکورہ میں اگر آپ نے سچی توبہ کی کہ اپنے اس  فعل پر شرمندہ ہوکر ان کفریات سے  براءت اختیار کرلی اور کلمہ طیبہ پڑھ لیا تو   توبہ  اور تجدیدِ ایمان  کے لیے اتنا کافی ہے،ہر جملے سے الگ  الگ توبہ کرنا اور ہر بار کلمہ پڑھنا ضروری نہیں۔نیز توبہ وتجدیدِ ایمان کے بعد اگر نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں کیا (جس میں مہرِ جدید بھی طے کیا گیاہو،ورنہ مہرِ مثل  یعنی عام طور پر اس عورت کے خاندان کی دیگر عورتوں کا جتنا مہر مقرر کیا جاتا ہواتنی مقدار میں مہرکی ادائیگی شوہر کے ذمہ واجب رہے گی۔)اور فریضۂ  حج بھی اس کے احکام وآداب کے مطابق  اداکیاتو یہ دونوں بھی  درست ہوئے۔

حوالہ جات

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار:4/ 228):

ثم اعلم أنه يؤخذ من مسألة العيسوي أن من كان كفره بإنكار أمر ضروري كحرمة الخمر مثلا أنه لا بد من تبرئه مما كان يعتقده لأنه كان يقر بالشهادتين معه فلا بد من تبرئه منه كما صرح به الشافعية وهو ظاهر.

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 687،688):

فما يكون كفرا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حج ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا والولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لا يرتفع الكفر وما كان في كونه كفرا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطا وما كان خطأ من الألفاظ لا يوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولا يؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق.

ایضا  (1/ 372):

(وارتداد أحد الزوجين) أي تبدل اعتقاد الإسلام بالكفر حقيقة على أحدهما كما إذا تمجس، أو تنصر، أو حكما كما إذا قال بالاختيار ما هو كفر بالاتفاق (فسخ) أي رفع لفقد النكاح حتى لا ينتقص به عدد الطلاق سواء كانت موطوءة، أو غيرها (في الحال) بدون القضاء عند الشيخين... (وعند محمد ارتداد الرجل طلاق) وهو يعتبره بالإباء وأبو يوسف مرة على أصله في الإباء وهو أن إباء الزوج ليس بطلاق فكذا الردة وأبو حنيفة - رحمه الله تعالى - فرق بينهما ووجهه أن الردة منافية للنكاح والطلاق رافع فتعذرت الردة أن يجعل طلاقا بخلاف الإباء، قيد بردته؛ لأن ردتها فسخ اتفاقا؛ لأن بعض مشايخ بلخي وسمرقند كانوا يفتون بعدم وقوع الفرقة حسما لباب المعصية وعامتهم يقولون يقع الفسخ ولكن يجبر على النكاح لزوجها الأول بعد الإسلام وهو ظاهر الرواية وهو الصحيح؛ لأن المقصود يحصل بذلك ومشايخ بخارى كانوا على هذا.

  محمدعبدالمجیدبن مریدحسین

    دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

   12/ربیع الثانی/1446ھ  

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمدعبدالمجید بن مرید حسین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب