84970 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتهم نے کچھ عرصہ قبل ایک کانفرنس میں اسلامک بینکنگ کے حوالے سے بات کی ،جس میں حضرت نے فرمایا کہ جتنے بھی اسلامک بینک ہیں ان میں اگر کوئی شخص ڈپازٹ رکھوائے اور بینک اس پر اس کو نفع دے تویہ اس کیلئے حلال ہے.۔یہاں یہ بھی فرمایا کہ یقینی طور پرصرف پاکستان کے اسلامی بینکوں کے بارے میں کہہ سکتا ہوں ،غیر ملکی بینک جو اسلامی بینکاری کی بنیادپر ہے یا انھوں نے اسلامک بینکنگ کی ونڈو کھولی ہے ان کے حوالے سے واضح طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ان سے منافع لینا حلال ہوگا یا نہیں۔
جو مسئلہ پوچھنا ہے وہ یہ ہے کہ میرا بھائی دوبئی میں کام کرتا ہے ہم نے وہاں کے اسلامک بینک سے قسطوں کی بنیاد پر گاڑی خریدنے کا مشورہ کیا ہے۔ مگر یہ کہ شیخ صاحب کے کانفرنس کے بعد ہم اپنے فیصلے میں متزلزل ہو گئے کہ اگر غیر ملکی اسلامک بینک سے ڈپازٹ پر منافع لینا یقینی طور پر حلال نہیں قرار دیا جا رہا تو کیا ان غیر ملکی اسلامک بینکوں سے قسطوں پرگاڑی لی جاسکتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کسی سودی بینک سے قسطوں پر گاڑی خریدنا، سودی بینک سے معاملات اور لین دین کرنا جائز نہیں، کیونکہ سود کی حرمت قرآن و سنت کے واضح دلائل سے ثابت ہے۔
اسلامک بینکوں کے معاملات کی نگرانی شریعہ بورڈ کے ماہر اور مستند مفتیاں کرام کرتے ہیں اور انہی کی نگرانی میں ان کے سارے معاملات انجام دیے جاتے ہیں ، لہذا اسلامک بینک سے قسطوں پرگاڑی خریدنا درست اور جائز ہے۔
اس سلسلے میں اسلامک بینک اپنے کسٹمر کے ساتھ شرکت متناقصہ کا عقد کرتا ہے، اس طور پر کہ ابتداء میں بینک اورکسٹمردونوں طے شدہ تناسب سے گاڑی میں شریک ہوتےہیں، ایگریمنٹ کے مطابق بینک اپنے حصے(ملکیت) کا کرایہ کسٹمر سے وصول کرتا ہے اور اپنے حصے کے یونٹس بناکرکسٹمر کو بیچ دیتا ہے جو وہ آہستہ آہستہ خریدتا رہتاہے، کسٹمرکےقسط وار یونٹس خریدنےکی وجہ سے بینک کاحصہ گھٹتا رہتا ہے اورکرایہ کی رقم بھی کم ہوتی رہتی ہے، جبکہ کسٹمر کاحصہ(ملکیت) بڑھتا چلا جاتاہےپھر ایک متعینہ مدت مثلا پانچ سال کےبعدکسٹمرمکمل طورپرگاڑی کا مالک بن جاتاہے۔
لہذا اگر دوبئی میں موجود بینک وہاں کے علماء اور مفتیان کرام کی زیر نگرانی چل رہے ہوں اور ان میں سودی معاملات نہ ہوتے ہوں اور مندرجہ بالا طریقے پر شرکت متناقصہ کے عقد کے تحت معاملات طے ہوتے ہوں تو ان سے قسطوں پر گاڑی خریدنا جائز ہے۔ لیکن اگر ان بینکوں میں سودی معاملات ہوتے ہوں تو ان سے قسطوں پر گاڑی خریدنا جائز نہیں ۔
حوالہ جات
المعاییر الشرعیۃ(رقم:12):
:1المشاركة المتناقصة عبارة عن شركة يتعهد فيها أحد الشركاء بشراء حصة الآخر تدریجیا إلى أن يتملك المشتري المشروع بكامله، ولا بد أن تكون الشركة غير مشترط فيها البيع والشراء، وإنما يتعهد الشريك بذلك بوعد منفصل عن الشركة،وكذلك يقع البيع والشراء بعقد منفصل عن الشركة، ولا يجوز أن يشترط أحدالعقدين في الآخر.
: 2يجب أن تطبق على المشاركة المتناقصة الأحكام العامة للشركات، وبخاصة أحكام شركة العنان. وعليه لا يجوز أن يتضمن عقد الشركة أي نص يعطي أیا من طرفی المشاركة الحق في استرداد حصته من رأس مال الشركة.
:3لا يجوز اشتراط تحمل أحد الشريكين -وحده- مصروفات التأمين أو الصيانة ولوبحجة أن محل الشركة سيئول إليه.
:4 يجب أن يقدم كل من الشريكين حصة في موجودات الشركة، سواء كانت مبالغ نقديةأو أعيا ً نا يتم تقويمها مثل الأرض التي سيقام البناء عليها، أو المعدات التي يتطلبهانشاط الشركة. وتعتمد حصص الملكية الخاصة لكل طرف لتحميل الخسارة إن وقعت، وذلك في كل فترة بحسب تناقص حصة أحد الشركين وتزايد حصة الشريكالآلآخر.
:5 يجب تحديد النسب المستحقة لكل من أطراف الشركة (المؤسسة والعميل) فيأرباح أو عوائد الشركة، ويجوز الاتفاق على النسب بصورة مختلفة عن حصص الملكية، ويجوز استبقاء نسب الأرباح ولو تغيرت حصص الملكية، ويجوزالاتفاق بين الطرفين على تغيرها تبعا لتغير حصص الملكية دون الإخلال بمبدأ تحميل الخسارة بنسبة حصص الملكية.
:6 لا يجوز اشتراط مبلغ مقطوع من الأرباح للأحد الطرفين،
:7 يجوز إصدار أحد الشريكين وعدا ملز ً ما يحق بموجبه لشريكه تملك حصته تدريجیامن خلال عقد بيع عند الشراء وبحسب القيمة السوقية في كل حين أو بالقيمة التي يتفق عليها عند الشراء. ولايجوز اشتراط البيع بالقيمة الاسمية.
:8 لا مانع من تنظيم عملية تملك حصة المؤسسة من قبل شريكها بأي صورة يتحقق بها غرض الطرفين، مثل التعهد من شريك المؤسسة بتخصيص حصته من ربح الشركة أوعائدها المستحق له ليتملك بها حصة نسبية من حصة المؤسسة في الشركة أو تقسيم محل الشركة إلى أسهم يقتني منها شريك المؤسسة عد ً دا معينًا كل فترة إلى أن يتم شراء شريك المؤسسة الأسهم بكاملها فتصبح له الملكية المنفردة لمحل الشركة.
: 9 يجوز لأحد أطراف الشركة استئجار حصة شريكه بأجرة معلومة ولمدة محددة مهما كانت، ويظل كل من الشريكين مسؤولا عن الصيانة الأساسية لحصته في كل حين.
عطاء الر حمٰن
دارالافتاءجامعۃالرشید ،کراچی
12/ربیع الثانی /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عطاء الرحمن بن یوسف خان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |