03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر تجارتی وقف فنڈ کا حکم
84957وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

  چند افراد نے مل کر ہمدردی اور احسان کی بناپر برادری کی سطح پر ویلفئر ٹرسٹ کمیٹی کے نام سے وقف  پول قائم کیا ہے،جس کا مقصد یہ ہے کہ  ممبران  میں سےکسی کو بھی غمی یا خوشی کے موقع پر فنڈ کی ضرورت ہو تو کمیٹی اس کو وقف فنڈ سے رقم ادا کرے گی،  ویلفئر ٹرسٹ کمیٹی نےاس کی  کچھ شرائط بھی رکھی ہیں جو درج ذیل ہیں:

 1. اس کمیٹی کا مقصد: اس کمیٹی کا مقصد صرف ممبر ان کی خدمت ہے اور اس کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے۔

 2. وقف کے اصولوں کی پیروی: کمیٹی کے تمام امور وقف کے اصولوں پر قائم ہیں ۔

 3.چندے کی نیت: اراکین جو چندہ دیتے ہیں وہ وقف کی نیت سے دیتے ہیں اور اس نیت سے کہ یہ رقم کمیٹی کے مقاصد کے لیے خرچ ہوگی، کیا یہ شرعاً جائز ہے؟

 4. چندے کی واپسی کا مطالبہ:  اراکین اس بات پر راضی ہیں کہ وہ وقف کی نیت سے جوچندہ دیتے ہیں اور اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کریں گے،  کیایہ اصول شرعی لحاظ سے درست ہے؟

 5. استفادہ کی شرائط:  کمیٹی کی خدمات صرف ان اراکین کے لیے مخصوص ہیں جو باقاعدگی سے چندہ جمع کراتے ہیں ،جو چندہ نہیں دے گا وہ اس کمیٹی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔ اس بات سے اراکین کو پہلے ہی آگاہ کیا جاتا ہے۔

 6. غمی یا خوشی کے مواقع پر تعاون:  کمیٹی غمی یا خوشی کے مواقع پر اراکین کی مالی مدد کرتی ہے اور اس کے لیے مخصوص رقم مختص کی جاتی ہے،  کیایہ  شرعی اصولوں کے مطابق ہے؟

 7 .کمیٹی کا ممبران پر ماہانہ رقم رکھنا: کمیٹی کاہر ممبر ابتدائی 1000 روپے اور ماہانہ ،300روپے چندہ جمع کرےگا، کیا یہ صورت شرعا جائز ہے؟

 8. متاثر شخص کو ملنے والی رقم جمع کرائی گئی رقم سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہے اور یہ رقم وقف فنڈ سے ملے گی۔ویلفئیر ٹرسٹ کمیٹی کے تمام امور اوپر بیان کردہ شرائط کے مطابق ہیں، کیا یہ کمیٹی شرعی اصولوں کے مطابق درست ہے ، اگر شرعا یہ کمیٹی  یا مذکورہ شرائط میں سے  کوئی ایک شرط ناجائز ہے تو اس کا متبادل کیا ہوگا ، قران و حدیث کی روشنی میں مذکورہ مسئلے کی وضاحت فرما ئیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کمیٹی کا مقصد:  کمیٹی کا مقصد اپنے طور پر ٹھیک ہے، لوگ جمع ہو کر باہمی تعاون کے لیے وقف پول قائم کر سکتے ہیں۔

2۔وقف کے اصولوں کی پیروی میں کوئی حرج نہیں ، البتہ یہ ضروری ہےکہ وقف  فنڈ کسی مستند عالم یا مفتی کے زیر نگرانی رہے۔

3۔چندے کی نیت سے وقف میں رقم دی جاسکتی ، چندہ دینے کے بعد وہ رقم وقف کی ملکیت بن جائے گی۔

4۔یہ شرط بھی درست ہے ، کیونکہ جب کوئی چیز وقف کی ملکیت بن گئی تو واپسی کا مطالبہ نہیں ہوسکتا ۔

5۔استفادے کی شرائط میں تبدیلی کرنا ضروری ہے ورنہ اس میں سودی عنصر موجود رہے گا   ۔وہ تبدیلی یہ ہے:

۱۔وقف فنڈ کے موقوف علیہم صرف وہ لوگ نہیں ہوں گے جو چندہ دینے والے ہوں، بلکہ موقوف علیہم تمام مستحق ممبران ہوں گے،خواہ وہ چندہ دیں یا کچھ لوگ کسی مجبوری کی وجہ سے چندہ نہ دے سکیں ۔

۲۔چندہ دینے والے ممبران پر تحریری طور پر یہ بات واضح کی جائےکہ انہیں چندہ دہندہ ہونے کی بنیاد پر وقف سے کسی اختصاصی یا ترجیحی دعویٰ یا  کلیم کرنے کا حق نہیں ہوگا بلکہ وقف سے استفادہ کے لیے انتخاب قواعد و ضوابط کے مطابق ہوگا  ،لیکن اگر قواعد و ضوابط کے مطابق بیک وقت ایک سے زائد کا استحقاق ہو اور وقف فنڈ سے سب کا تعاون ممکن نہ ہو تو وقف فنڈ سے استفادے کا انتخاب خالص  کمیٹی کی صوابدید پر ہوگا ۔

۳۔انتظامی کمیٹی کی ذمہ داری ہوگی کہ وقف سے تعاون صرف چندہ دینے والوں کے ساتھ مخصوص نہ کریں ،بلکہ وقت بر وقت ایک معتد بہ مقدار میں (کم از کم بیس فیصد یا اس سےزائد)ان ممبران سے بھی تعاون کریں  جنہوں نے وقف فنڈ میں چندہ جمع نہ کیا ہو ۔

۴۔اگر وقف فنڈ میں گنجائش نہ ہو تو کسی بھی درجے میں منتظمین کی یہ ذمہ داری نہ ہو کہ وہ موقوف علیھم کے ساتھ تعاون کریں ،یا اس کے لیے قرضے وصول کریں ،البتہ اگر منتظمین اپنی صوابدید پر بوقت ضرورت وقف فنڈ کے لیے قرض حاصل کریں اور بعد میں چندہ کی رقم سے ،یا کسی دوسرے جائز ذریعے سے اس کی ادائیگی کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

6۔ غمی خوشی کے موقع پر تعاون کرنے میں کوئی حرج نہیں ،البتہ ان مواقع پر جو بدعات یا غیر شرعی رسمیں ہوتی ہیں ان میں تعاون کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ مخصوص کردہ رقم دینا بھی درست ہے ،لیکن کمیٹی اگربوقت ضرورت  مختص کردہ رقم سے کم یا زائد دے تو اسے اس کا اختیار ہوگا۔

7۔ انتظامی معاملات کے لیے کچھ نہ کچھ مقدار طے کی جاسکتی ہے، البتہ یہ معاملہ اختیاری ہو ،اگر  کوئی کسی مجبوری کی وجہ سے  چندہ  نہ دے سکے تو اس وجہ سے اس کا تعاون نہ کرنا درست نہیں   ۔اس  کی تفصیل شرائط میں گزر چکی ہے۔

8۔جواب میں ذکر کی گئی شرائط کی رعایت رکھی جائے تو  جائز ہے، کوئی حرج نہیں ۔البتہ اگر ان شرائط کے ساتھ  فنڈ جاری رکھنا ممکن نہ رہے ،تو  اس کے حل کی ایک  صورت یہ  ہو سکتی ہےکہ فنڈ کو کسی برادری کے ساتھ خاص نہ کیا جائے ،بلکہ اسے پورے گاؤں کے لیے عام کیا جائے اور اہل ثروت کو زیادہ چندہ دینے کی ترغیب دی جائے۔

حوالہ جات

الموسوعة الفقهية الكويتية(41/ 194):

وقول محمد إنه لا يجوز وقف المنقولات لكن إن جرى التعامل بوقف شيء من المنقولات جاز وقفه. قال في الاختيار: والفتوى على قول محمد لحاجة الناس وتعاملهم بذلك، كالمصاحف والكتب والسلاح.

وبناء على ذلك فحين جرى التعامل في العصور اللاحقة بوقف النقود وجدت الفتوى بدخول النقود تحت قول محمد بجواز وقف ما جرى التعامل بوقفه. قال في الدر المختار: بل ورد الأمر للقضاة بالحكم به كما في معروضات أبي السعود.

ووجه الانتفاع بها مع بقاء عينها هو عندهم بإقراضها، وإذا رد مثلها جرى إقراضه أيضا، وهكذا، قال ابن عابدين: لما كانت الدراهم والدنانير لا تتعين بالتعيين، يكون بدلها قائما مقامها لعدم تعينها.

فتح القدير للكمال (6/ 239):

ولو جعل دارا له بمكة سكنى لحاج بيت الله والمعتمرين، أو جعل داره في غير مكة سكنى للمساكين، أو جعلها في ثغر من الثغور سكنى للغزاة والمرابطين. أو جعل غلة أرضه للغزاة في سبيل الله تعالى ودفع ذلك إلى وال يقوم عليه فهو جائز، ولا ‌رجوع فيه.

البناية شرح الهداية(10/ 210):

والهبة بشرط العوض صحيح، والشرط صحيح حتى يكون هبة ابتداء بيعا انتهاء.

فتح القدير للكمال بن الهمام - ط الحلبي(6/ 200):

فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع، والواقف مالك له أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن ‌معصية، وله أن يخص صنفا من الفقراء دون صنف، وإن كان الوضع في كلهم قربة۔

 محمد سعد ذاكر

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

12/ربیع الثانی /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب