85054 | تقسیم جائیداد کے مسائل | متفرّق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائےدین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جنوبی وزیرستان میں یہ رواج بہت صدیوں سے ہے کہ یہاں گھروں میں مشترکہ نظام چل رہا ہے، یعنی ایک باپ مع اس کی اولاد رہتے ہیں اور کاروبار بھی مشترکہ ہوتاہے۔شرکت کی کوئی تعیین نہیں کی جاتی جسے شریعت میں شرکت فاسدہ کہتے ہیں۔مثلاً پانچ بھائی ہیں ان میں سے دو گھر پر رہتے ہیں ،یعنی گھر کا نظام سنبھال لیا ہے اور باقی تین باہر ممالک میں کاروبار کرتے ہیں۔ جو بھائی باہر گئے ہیں وہ والد صاحب کے پیسے پر گئے ہیں اور بہت پیسے بھی کمائے ہیں، لیکن گھر والے بھائیوں نے کچھ نہیں کمایا۔ اب یہ سب علیحدہ علیحدہ رہنا چاہتے ہیں۔ اب ان کے درمیان تقسیم کس طرح ہو گی؟ ٹوٹل پیسے پچاس لاکھ ہیں، کل افراد پانچ بھائی، تین بہنیں اور ایک والد صاحب ہیں۔
نوٹ: ایک خاص رواج یہ بھی ہے کہ جو بھائی باہر ملک میں گیا ہے ،وہ اس کے ویزے کا حساب بھی کرتا ہے، شرعاً یہ ویزے کا حساب کرنا کیسا ہے؟ کیا یہ حقوق مجردہ نہیں؟
شرکت فاسدہ کا کیا حکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
قبائلی علاقوں میں یہ رواج ہے کہ جب تک والد اور بیٹے یا بھائی آپس میں ایک ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور ان کے اخراجات مشترکہ ہوتے ہیں تب تک جو شخص جو کچھ کماتا ہے وہ والد یا بڑے بھائی کو دیتا ہےاور پھر وہ مشترکہ رقم میں سے ضرورت کے مطابق خرچ کرتے ہیں۔ یہ تمام معاملات تبرع اور ہبہ کے تحت ہوتے ہیں ،لہذا ان پر شرکت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ صورت ِ مسئولہ میں والدنے بیٹوں کو باہر ملک کمائی کے لیے بھیجنے پر جو کچھ خرچ کیا ہے ،وہ اس کی جانب سے ہدیہ ہے۔ اس کے بعد باہر جانے والے بیٹوں نے جو رقم والد کو بھیجی ہے ،وہ ان کی طرف سے والد کو ہدیہ ہے ۔ اب اگر والد کے پاس جمع شدہ رقم وہ اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی ہے کہ یا تو سب اولاد میں برابر تقسیم کرے یعنی بیٹے اور بیٹی میں فرق نہ کرے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دے، یا پھرمیراث کے طریقے پر تقسیم کرے۔ میراث کے طریقے پرتقسیم کرنے کی صورت میں بیٹیوں کا حصہ بیٹوں کی نسبت آدھا ہو گا۔البتہ اگر کسی بچے کو اس کی خدمت گزاری ،تنگدستی یا اور کسی معقول وجہ سے زیادہ دینا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے۔اسی طرح اگر وہ گھر پر رہنے والے بھائیوں کو ویزے کی قیمت کے بقدر رقم دینا چاہتا ہےتو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔
اگر بیٹوں میں سے کسی نے خود سے کوئی رقم کمائی ہے اور وہ والد کو نہیں دی، بلکہ الگ سے اپنی ملکیت میں رکھی ہےتو وہ تقسیم میں شامل کرنا ضروری نہیں ۔ البتہ اگر وہ اپنی رضامندی سے اسے بھی تقسیم میں شامل کرنا چاہے تو اچھی بات ہے۔
شرکتِ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ ہر شریک اپنے سرمائے کے تناسب سے نفع نقصان کا حق دار ہوتا ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ : وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة ؛لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى. ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم. (الدر المختار ،ص:562)
وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ: يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة، إلا لزيادة فضل له في الدِين ،وإن وهب ماله كله الواحد ،جاز قضاءً وهو آثم ،كذا في المحيط.
(البحر الرائق :7/ 288)
وقال الشیخ محمد تقی العثمانی: وأما إذا أراد الرجل أن يقسم أملاكه فيما بين أولاده في حياته، لئلا يقع بينهم نزاع بعد موته فإنه وإن كان هبة في الاصطلاح الفقهي، ولكنه في الحقيقة والمقصود استعجال لما يكون بعد الموت، وحينئذ ينبغي أن يكون سبيله سبيل الميراث، فلو قسم رجل في مثل هذه الصورة للذكر مثل حظ الأنثيين على قول الإمام أحمد ومحمد بن الحسن رحمهما الله ، فالظاهر أن ذلك يسع له.
(تکملۃ فتح الملھم 68/8:)
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: ولو دفع إلى ابنه مالا، فتصرف فيه الابن، يكون للابن إذا دلت دلالة على التمليك .اهـ. )رد المحتار :5/ 697)
وقال العلامۃ المناوی رحمہ اللہ:عن أبي هريرة……(كل أحد أحق بماله من والده وولده والناس أجمعين) لا يناقضه (أنت ومالك لأبيك )؛لأن معناه إذا احتاج لماله أخذه، لا أنه يباح له ماله مطلقا.
( التيسير بشرح الجامع الصغير:2/ 210)
وقال العلامۃ عبدالرحمن مبارکفوری رحمہ اللہ: وفي حديث جابر :أنت ومالك لأبيك قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك ؛لأن مال الولد له ،وزكاته عليه ،وهو موروث عنه .(تحفة الأحوذي:4/ 493)
سعد امین بن میر محمد اکبر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید، کراچی
13/ربیع الثانی1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سعد امین بن میر محمد اکبر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |