85002 | زکوة کابیان | ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی |
سوال
میرا ایک میڈیکل سٹور ہے، دوائیاں منگوانے کے لیے میں آرڈ دے چکا ہوں اور قیمت بھی ادا کر چکا ہوں، وہ دوائیاں ابھی تک میری دکان میں نہیں پہنچیں، بلکہ راستے میں ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا نصاب مکمل ہونے کی صورت میں میرے اوپر ان دوائیوں کی بھی زکوة واجب ہو گی جو ابھی میرے قبضہ میں نہیں آئیں۔
وضاحت:بقول سائل آرڈر پر خریدوفروخت کا معاملہ مکمل ہو چکا ہے، البتہ دوائیاں قبضہ میں نہیں آئیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ایسا مال جس کو خریدنے کے بعد ابھی تک آدمی نے اس پر قبضہ نہ کیا ہو زکوة کے حوالے سے اس کا حکم یہ ہے کہ ایسا مال آدمی کی ملکیت میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ خریدوفروخت کا معاملہ مکمل ہونے سے خریدی گئی چیز میں خریدار کی ملکیت آجاتی ہے اور شرعا آدمی اس کا مالک سمجھا جاتا ہے، اس لیے یہ مال آدمی کے قابل زکوة اثاثوں میں شامل ہو گا، البتہ چونکہ ابھی اس نے اس مال پر قبضہ نہیں کیا، اس لیے اس کی زکوة فی الحال ادائیگی کرنا واجب نہیں ہو گا، لیکن قبضہ ہو جانے کے بعد گزشتہ سال کی بھی زکوة ادا کرنا واجب ہو گا، کیونکہ ملکیت آجانے کی وجہ سے یہ مال گزشتہ سال قابلَ زکوة اثاثوں میں شامل تھا۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية(کتاب الزکوۃ، باب أول ج ۱ ص ۱۷۲،دار الفکر):
"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج وأما المبيع قبل القبض فقيل لا يكون نصابا والصحيح أنه يكون نصابا كذا في محيط السرخسي."
البحر الرائق (کتاب الزکوۃ ،شروط وجوب الزکوۃ ج ۲ ص ۲۲۵،دار الکتاب الاسلامی)
"وقدمنا أن المبيع قبل القبض لا تجب زكاته على المشتري وذكر في المحيط في بيان أقسام الدين أن المبيع قبل القبض، قيل: لا يكون نصابا؛ لأن الملك فيه ناقص بافتقاد اليد، والصحيح أنه يكون نصابا؛ لأنه عوض عن مال كانت يده ثابتة عليه، وقد أمكنه احتواء اليد على العوض فتعتبر يده باقية على النصاب باعتبار التمكن شرعا اهـ فعلى هذا قولهم: لا تجب الزكاة معناه قبل قبضه وأما بعد قبضه فتجب زكاته فيما مضى كالدين القوي."
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
13/ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |