03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹے کو ہدیہ دینا
84990جائز و ناجائزامور کا بیانہدیہ اور مہمان نوازی کے مسائل

سوال

میرے والد صاحب کے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں ،ہم سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ۔ چچوں کےبیٹے ابھی چھوٹے ہیں،لیکن ہمارا خاندان بڑا ہے ،ایک مشترکہ گھر میں گزارا کرنا مشکل ہے۔ میرے والد صاحب سرکاری ملازم ہیں۔ان کی آمدن اتنی ہے کہ ہمارے گھر کا خرچہ پورا ہوجاتا ہے۔ان کی تنخواہ میں اتنی گنجائش نہیں کہ وہ ہمارے لیے الگ گھر تعمیر کرسکیں  ،البتہ میرے والد کے پاس دو پلاٹ اور بھی ہیں ۔ ۔ اللہ تعالی نے ہمارے دادا جان کو وسعت دی ہے،وہ ہمارے لیے الگ مکان تعمیر کر رہے ہیں ،میرے چچا زبان سے تو کچھ نہیں کہہ رہے ،لیکن ان کے عمل سے لگ رہا ہے کہ دادا کے فیصلے پر وہ خوش نہیں ہیں ۔ایسی صورت میں میرا دادا اگر میرے والد کو اپنی خوشی سے یہ مکان دے دیں ، اس میں شرعی طور پر ہمارے لیے کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب اولاد کو کوئی چیز ہبہ کی جائے تو بلاعذر شرعی  تمام اولاد میں برابری کرنا ضروری ہے۔ بہتر یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹیوں کو برابر حصہ دیا جائے، البتہ اگر وراثت کے اصول کے مطابق بیٹی کو بیٹے کی بنسبت آدھا حصہ دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے ،اسی طرح اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو اس کی دینداری یا خدمت یامعاشی تنگی کے پیشِ نظر کچھ زیادہ دے دیا جائے تو اس کی بھی اجازت ہے، بشرطیکہ دیگر ورثاء کو محروم کرنے کا ارادہ نہ ہو۔

مذکورہ صورت میں اگر آپ کے دادا گھر بنوا کر آپ کے والد کو  دے دیں تو آپ  کے والد اس کے مالک بن جائیں گے، لیکن  دادا کو چاہیے کہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے اس کے برابر ہدیہ کا انتظام کریں  ،ورنہ بلاعذر شرعی ایسا کرنے پر  وہ گناہگار ہوں گے، یا دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کے والد  ایک پلاٹ بیچ کر دوسرے پلاٹ  میں  از خود کام شروع کر لیں ، اس دوران باپ ہونے کے ناطے آپ کے دادا ،آپ کے والد کے ساتھ معمولی مالی تعاون  کر سکتے ہیں  ۔

حوالہ جات

حاشية ابن عابدين  (4/ 444):

فالعدل من حقوق ‌الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في ‌الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد ‌تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى،…. صرح في الظهيرية بأنه لو أراد أن يبر أولاده فالأفضل عند محمد أن يجعل للذكر مثل حظ الأنثيين، وعند أبي يوسف يجعلهما سواء وهو المختار۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 288):

يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط وفي فتاوى قاضي خان رجل أمر شريكه بأن يدفع إلى ولده مالا فامتنع الشريك عن الأداء كان للابن أن يخاصمه إن لم يكن على وجه الهبة وإن كان على وجهها لا لأنه في الأول وكيل عن الأب وفي الثاني لا وهي غير تامة لعدم الملك لعدم القبض وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه لأن فيه إعانة على المعصية ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته

   محمد سعد ذاكر

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

13/ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب