03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انٹرشپ کی اجرت طے نہ کرنے کی صورت میں اجرت کے مطالبے کا حکم
85013اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

میں نے حال ہی میں ایک تعلیمی ادارے میں نوکری کے لیے درخواست دی اور انٹروی دیا۔ انٹرویو کے دوران مجھے بتایا گیا کہ چونکہ میرے پاس پہلے کا کوئی تجربہ نہیں ہے، اس لیے مجھے مستقل ملازمت کے بجائے 3 ماہ کی انٹرن شپ دی جائے گی، جس پر میں نے رضامندی ظاہر کی، انٹرویو کے دوران مجھ سے پوچھا گیا کہ میں کتنی تنخواہ کی توقع رکھتا ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ جو آپ کے ادارے کا معیار ہو،وہی مجھے دے دیں،کیونکہ میری معلومات کے مطابق پر انٹرن شپس کی تنخواه یا وظیفہ مقرر ہوتا ہے اور اس میں بات چیت نہیں کی جا سکتی۔ انٹرویو لینے والے نےاس بات پر اتفاق کیا۔تاہم انٹرن شپ کے پہلے مہینے کے اختتام پر مجھے ادارے کے دیگر عملے سے معلوم ہوا کہ یہ ادارہ بغیر تنخواہ کے انٹرن شپ کرواتا ہے۔ انٹرویو کے دوران مجھے اس بات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی انٹرویو لینے والے نے واضح طور پر کہا تھا کہ انٹرن شپ بغیر تنخواہ کے ہوگی۔ جب میں نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے سینئر کے اسٹنٹ سے تنخواہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ انٹرن شپ والوں کو کوئی ادائیگی نہیں کرتے۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ انٹرویو میں مجھے واضح طور پر بغیر تنخواہ کے انٹرن شپ کے بارے میں نہیں بتایا گیا اور اس گفتگو کی بنیاد پر میں کم از کم وظیفے کی توقع کر رہا تھا، کیا اسلامی نقطہ نظر سے میرے لیے ادارے سے تنخواہ یا وظیفے کا مطالبہ کرنا درست ہے؟ کیا ادارے کو مجھے انٹرن شپ کے لیے اجرت کی ادائیگی کرنی چاہیے؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ مجھے کوئی لیٹر نہیں دیا گیا اور انٹرویو کے دوران معاوضہ کی کوئی تعیین نہیں کی گئی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق انٹرویو کے دوران سائل سے پوچھا گیا کہ "آپ کتنی تنخواہ کی توقع رکھتے ہیں؟" اس کے جواب میں سائل نے کہا کہ "جو آپ کے ادارے کا معیار ہو،وہی مجھے دے دیں" اس کے بعد انٹرویو لینے والے صاحب کی ذمہ داری تھی کہ وہ صراحت کرتے کہ ہمارے ادارے کی طرف سے انٹرن شپ بلا معاوضہ کروائی جاتی ہے، اس لیے آپ کو کسی قسم کی تنخواہ یعنی معاوضہ نہیں دیا جائے گا، لیکن انہوں نے جب اجرت کی کوئی وضاحت نہیں کی، بلکہ خاموشی کا اظہار کیا تو اس سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ معاملہ تبرع کی بنیاد پر بلامعاوضہ منعقد ہو گیا، بلکہ انٹرویوکے دوران ہونے والی گفتگو کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ فریقین اجارہ کا معاملہ کرنے جا رہےتھے، اس لیے اس کو اجارہ کا معاملہ شمار کیا جائے گا اور اجارہ کا اصول یہ ہے کہ اس میں اگر اجرت متعین اور طے نہ کیا جائے تو معاملہ شرعا فاسد اور ناجائز ہو جاتا ہے، جس کو ختم کرنا اور گزشتہ ایام کی ملازم کو اجرت مثل (اس طرح کاکام کرنے پر معاشرے میں جو اجرت دی جاتی ہو) دینا ذمہ لازم ہوتا ہے، لہذا مذکورہ صورت میں ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ سابقہ دنوں کی ملازم کو اجرت مثل دے اور اس معاملے کوختم کردے، اس کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے شریعت کے اصولوں کے مطابق نئے سرے سے معاملہ کر سکتے ہیں۔

حوالہ جات

تحفة الفقهاء (2/ 357) دار الكتب العلمية، بيروت:

باب الإجارة الفاسدة:  وما يكون به مخالفا المستأجر إذا كان مجهولا أو الأجر مجهولا أو العمل أو المدة فالإجارة فاسدة لأنها جهالة تفضي إلى المنازعة كما في البيع............ ثم في الإجارة الفاسدة إذا استوفى المنفعة يجب أجر المثل مقدرا بالمسمى عندنا وعند زفر يجب أجر المثل تاما على ما مر.

فتح القدير للكمال ابن الهمام (9/ 60) دار الفكر، بيروت:

باب الإجارة الفاسدة أنه يجب فيها أجر المثل، إذ لا شك أن الواجب الشرعي مأمور بإعطائه من قبل الشرع، فلم يكن الأمر بإعطائه الأجر دليل صحة العقد، اللهم إلا أن يقال: وقع الأمر في الحديث المذكور بإعطاء الأجر المضاف إلى الأجير حيث قال «أعطوا الأجير أجره» وذلك يفيد كون المراد بالأجر المأمور بإعطائه الأجر المسمى للأجير دون أجر المثل مطلقا، والأمر بإعطاء الأجر المسمى للأجير لا يتصور إلا في الإجارة الصحيحة تبصر.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

15/ربیع الثانی 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب