03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مدرسہ پر خرچ کیا ہوا پیسہ واپس لینے کا حکم
85507وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

بندہ ایک مدرسہ سے فارغ التحصیل ہے، جو کہ وفاق المد ارس سے سند یافتہ ہے، اب ایک وقف شدہ زمین پر 2012 سے خدمت کر رہا ہے اور مدرسہ وفاق المدارس سے ملحق ہے، با قاعدہ حفظ کی کلاس ہے اور وفاق کا امتحان ہوتا ہے، چاردیواری مسجد کا مکمل انتظام، مدرسے کی دوعدد در سگا ہیں، ایک باورچی خانہ اور ایک مکان قاری صاحب کے لیے ہے، الغرض مکمل سہولیات موجود ہیں، لوگوں کے تعاون سے با قاعدہ بنائے گئے ہیں۔ انتقال اوررجسٹرڈ مہتمم کے نام ہے، اب وقف کرنے والا شخص مدرسہ واپس لےکرخودچلانا چاہتا ہے، جبکہ اس نے زمین دینے کے علاوہ ایک روپیہ بھی اس پر خرچ نہیں کیا اور کوئی شرعی اعتراض بھی نہیں ہے،سوالات درج ذیل ہیں:  

  1. بارہ سال سے جومہتمم محنت کر رہا ہے اس کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ جبکہمہتمم نے اپنا ذاتی گھر بیچ کر اس مدرسے پر لگا دیا ہے۔ مدرسہ واپس کریں تو اس طرح مالدار لوگ غریب مولویوں سے مدرسہ بنوا کر خود مالک بن جائیں گے۔ کیا انتقال اوررجسٹر ڈ ہونے کے بعد واقف کو دخل اندازی کا کوئی حق ہے؟
  2. اگر بالفرض واقف زبر دستی مدرسہ واپس لے لے تو کیامہتمم کو یہ حق ہے کہ وہ اپنا مدرسہ پر خرچ کیا ہوا پیسہ واپس لے ؟ کیونکہ اس کا دوسری جگہ مدرسہ بنانے کا ارادہ ہے۔
  3. یہ بھی واضح کریں کہ کیا واقف کو کمیٹی میں رکھنا ضروری ہے؟ کوئی کام مثلا تعمیراتی کام یا مدرس کو نکالنے وغیرہ کے لیے واقف سے مشاورت کرنا ضروری ہے؟ جبکہ واقف مدارس کے اصول وضوابط سے واقف نہیں ہے۔

وضاحت: سائل نے بتایا کہ واقف نے زمین وقف کرتے وقت اپنے متولی یا مہتمم ہونے کی کوئی شرط نہیں لگائی تھی، اس نے یہ زمین مدرسہ بنانے کے لیے میرے سپرد کی تھی اورمدرسہ چلانے کا مجھے ہی مکمل اختیار دیا تھا،  اور اس وقت جب اس کو مہتمم بننے کا کہا گیا تو اس نے کہا کہ اگر مجھےمہتمم بننا تھا تو زمین آپ کے سپرد کیوں کرتا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فقہائے کرام رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ واقف اگر متولی کو معزول کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے، کیونکہ تولیت کا اصل اختیار واقف کو ہوتا ہے اورمتولی درحقیقت واقف کے وکیل کی حیثیت سے وقف کی نگرانی اور اس کا انتظام وانصرام سنبھالتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں واقف آپ کو مذکورہ مدرسہ کی تولیت سے معزول کرکے خود متولی بن سکتا ہے، البتہ اگر خود واقف کے اندر تولیت کی شرائط نہ پائی جائیں تو اس صورت میں حاکم اور قاضی کو حق حاصل ہے کہ وہ واقف کو مدرسہ کی تولیت سے معزول کر کے کسی اور باصلاحیت، صالح اور دیانتدار شخص کو وقف کا متولی بنائے اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نےوقف کا متولی بننےکے لیے درج ذیل شرائط ذکر کی ہیں:

(1) گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا نہ ہو۔

(2)  امانت داری کے ساتھ وقف کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتا ہو۔

(3)وقف کے مال میں خیانت اور دھوکہ دہی کا ارتکاب  نہ کرے۔

(4) کسی وجہ سے وقف کے انتظام وانصرام کی اہلیت مفقود نہ ہو، جیسے جنون وغیرہ۔

(5)وقف ميں لگائی گئی شرائط کی پاسداری کرتا ہو۔(ماخوذ از اسلام كا نظامِ اوقاف بتصرف:ص:548تا556)

لہذا اگر واقف میں  متولی بننے کے لیے درج ذیل شرائط پائی جائیں تو اس  کو وقف کا انتظام سنبھالنے کا اختیار حاصل ہے، ورنہ  اس کو چاہیے کہ آپ کو وقف کی تولیت سے معزول نہ کرے، بشرطیکہ آپ کے اندر تولیت کی مذکورہ بالا تمام شرائط موجود ہوں اورشریعت کے اصولوں کے مطابق مدرسہ کا نظم ونسق بدستور جاری رہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 427) دار الفكر-بيروت:

وعن واقف شَرطَ مرَتَّبا لرجل معين، ثم من بعده للفقراء ففرغ منه لغيره ثم مات هل ينتقل للفقراء؟ فأجبت: بالانتقال وفيها للواقف عزل الناظر مطلقا، به يفتى، ولم أر حكم عزله لمدرس وإمام ولاهما.

قال ابن عابدين:(قوله: للواقف عزل الناظر مطلقا) أي سواء كان بجنحة أو لا وسواء كان شرط له العزل أو لا وهذا عند أبي يوسف لأنه وكيل عنه وخالفه محمد كما في البحر: أي لأنه وكيل الفقراء عنده.

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (10/ 7692) دار الفكر - سوريَّة – دمشق:

ذكر الحنفية: أن للواقف عزل الناظر مطلقا، وبه يفتى. ولو لم يجعل الواقف ناظرا، فنصبه القاضي، لم يملك الواقف إخراجه.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 459) دار الفكر-بيروت:

قلت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔قوله الباني أولى بنصب الإمام والمؤذن في المختار إلا إذا عين القوم أصلح ممن عينه، وبه ظهر الجواب عما نقله الشارح عن الأشباه من قوله ولم أر حكم عزله لمدرس وإمام ولا هما، وهو أنه جائز للمصلحة إذا كانا مشروطين في أصل الوقف فبدونه بالأولى، وقد ظهر أنه ليس المراد أنه يجوز للواقف الرجوع عن شروط الوقف كما فهمه الشارح، حتى تكلف في شرحه على الملتقى للجواب عما قدمه عن الدرر قبيل قول المصنف اتحد الواقف والجهة من أنه ليس له إعطاء الغلة لغير من عينه لخروج الوقف عن ملكه بالتسجيل. اهـ.

الفتاوى الهندية (2/ 408) دار الفكر،بیروت:

الصالح للنظر من لم يسأل الولاية للوقف وليس فيه فسق يعرف هكذا في فتح القدير وفي الإسعاف لا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه.

المغني (6/ 40) لابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ) مكتبة القاهرة:

 وإن ولاه الواقف وهو فاسق، أو ولاه وهو عدل وصار فاسقا، ضم إليه أمين ينحفظ به الوقف، ولم تزل يده؛ ولأنه أمكن الجمع بين الحقين. ويحتمل أن لا تصح توليته، وأنه ينعزل إذا فسق في أثناء ولايته؛ لأنها ولاية على حق غيره، فنافاها الفسق، كما لو ولاه الحاكم، وكما لو لم يمكن حفظ الوقف منه مع بقاء ولايته على حق غيره، فإنه متى لم يمكن حفظه منه أزيلت ولايته، فإن مراعاة حفظ الوقف أهم من إبقاء ولاية الفاسق عليه.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 380) دار الفكر-بيروت:

القيم إذا لم يراع الوقف يعزله القاضي وفي خزانة المفتين إذا زرع القيم لنفسه يخرجه القاضي من يده.

2. مذکورہ صورت میں واقف کے آپ کو معزول کر کے مدرسہ واپس لینے کی صورت میں آپ کو مدرسہ پر خرچ کی گئی رقم شرعاً واپس لینے کا اختیار نہیں، کیونکہ وہ رقم وقف مدرسہ پر خرچ کرنے کی وجہ سے مفتی بہ قول کے مطابق آپ کی ملکیت سے نکل  کرمدرسہ کی ملکیت ہو گئی اور اس کا اجروثواب ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کو آخرت میں ملے گا، اس لیے اب وہ رقم واپس نہیں لی جا سکتی۔

مجلة الأحكام العدلية (ص: 168) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، كراتشي:

(المادة 874) لا يصح الرجوع عن الصدقة بعد القبض بوجه من الوجوه.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر(455/2)الناشر: دار الجيل:

أن الرجوع عن الصدقة غير جائز فتعبير الهبة هنا للاحتراز عن الصدقة كما أن الهبة المقصودة هنا هي الهبة للغني أما الهبة التي تكون للفقير فيما أنها صدقة فلا يمكن الرجوع عنها أيضا.

3۔ واقف نے اگر وقف کرتے وقت مدرسہ کی کمیٹی میں اپنی شمولیت کی شرط نہیں لگائی تھی تو اس کو کمیٹی میں رکھنا ضروری نہیں، نیز ایسی صورت میں مدرسہ کے کسی کام مثلا تعمیر کروانے، کسی مدرس کو نکالنے یا اندرونی انتظام وانصرام سے متعلق مشورہ کرنا بھی متولی کے ذمہ لازم نہیں، البتہ چونکہ شریعت نے واقف کو متولی معزول کرنے اور خود متولی بننے کا اختیار دیا ہے، اس لیے واقف سے وقتاً فوقتاً مدرسہ کے کاموں میں مشورہ کرتے رہنا اور اس کی رائے لیتے رہنا چاہیے، تاکہ وہ بھی مطمئن رہے، خصوصاً اگر وہ خود کوئی اپنی رائے پیش کرتا ہے اور اس میں وقف کا کوئی نقصان بھی نہ ہو تو اس کی رائے پر عمل کرنا چاہیے، البتہ اگر وہ کوئی ایسا مشورہ دے کہ جس میں وقف کا نقصان ہو تو ایسی صورت میں اس کے مشورہ پر عمل کرناجائز نہیں، بلکہ ایسی صورت میں اس کو حکمت، مصلحت اور بصیرت کے سمجھانا چاہیے کہ ایسا کرنے میں وقف کا نقصان ہے اور وقف کا نقصان کرنا کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں، اگرچہ وہ واقف ہی کیوں نہ ہو۔  

حوالہ جات

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 212):

الفتوى على قولهما في لزومه بلا قضاء كما قدمنا وإذا لزم عندهما فإنه يلزم بمجرد القول عند أبي يوسف بمنزلة الإعتاق بجامع إسقاط الملك وعند محمد لا بد من التسليم إلى المتولي والإفراز والتأبيد أما الأول فلأن حق الله تعالى إنما يثبت فيه في ضمن التسليم إلى العبد لأن التمليك إلى الله تعالى وهو مالك الأشياء لا يتحقق مقصودا وقد يكون تبعا لغيره فيأخذ حكمه فينزل منزلة الزكاة والصدقة فلو قال هذه الشجرة للمسجد لا تكون له ما لم يسلمها إلى قيم المسجد عند محمد خلافا لأبي يوسف وفي الخلاصة ومشايخ بلخ يفتون بقول أبي يوسف.

ردالمحتارعلى الدرالمختار، كتاب الوقف، مطلب في وقف المرتد والكافر (351/4):

(فإذا تم ولزم لايملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)قال ابن عابدين:(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

17/جمادی الاولیٰ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب