03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ماہ رمضان المبارک میں ڈیوٹی سر انجام نہ دینے کی وجہ سےملازمین کی تنخواہ کا حکم
84942اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

یہاں تحصیل شیواہ میں اکثر سرکاری اسکول کے اساتذہ کرام رمضان کے مبارک مہینے میں اسکول نہیں جاتے۔ حالانکہ حکومت کی طرف سے واضح احکامات ہیں کہ رمضان کے مہینے میں اسکول کھلے رہیں گے۔ لیکن ہمارے معزز اساتذہ کرام اپنی ڈیوٹی نہیں نبھاتے۔ ان کا جواز یہ ہےکہ رمضان کے مہینے میں ہماری روٹین خراب ہوتی ہے۔ صبح کے وقت نیند سے بیدار ہونا مشکل ہوتا ہے،  اس وجہ سے وہ بچوں کو نہیں پڑھا سکتے۔ 

اب سوال یہ ہےکہ:

  1. کیا رمضان کی وجہ سے ڈیوٹی سے غیر حاضر ہونا جائز ہے؟  
  2. رمضان میں روزےکی وجہ سے اپنی ڈیوٹی نہ کرنے سے اس دن کی اجرت یا تنخواہ کا کیا حکم ہے؟
  3. غیر حاضری والے دن کی اجرت یا تنخواہ سے افطاری خریدنا کیسا ہے؟
  4. رمضان میں اسکول نہیں آتے لیکن مدرسین اسکول میں حاضری لگاتے ہیں۔کیا یہ فراڈ اور دھوکہ نہیں؟ اور اس دھوکے کا کیا حکم ہے؟ 
  5. بعض اچھے خاصے دیندار لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ بعض احادیث میں بھی روزے کی وجہ سے مزدورکا بوجھ ہلکا کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ اپنی ڈیوٹی نہ کرنے سے کوئی گناہ نہیں یا حرام نہیں؟ 

مندرجہ بالا مسئلے کو شریعت کی روسے واضح کریں ۔ بہت بہت شکریہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

رمضان المبارک برکتوں اور نیکیوں کے سمیٹنے کا مہینہ ہے۔یہ سستی اور کاہلی کا مہینہ نہیں ہے کہ انسان اپنے  فرائض و ذمہ داری  میں کوتاہی کرے۔جس طرح روزہ اللہ کا حکم ہے،بعینہ اسی طرح معاہدے کی پاسداری کرنا، کسی کو دھوکہ نہ دینا   اور حلال کمانا اور کھانا ،یہ بھی اللہ کا حکم ہے۔لہذا عبادات کے ساتھ ساتھ اپنی ملازمت کو بھی حسب ضابطہ وقت دینا  ضروری ہے۔

آپ کے سوالات کے بالترتیب جوابات درج ذیل  ہیں :

  1. سرکاری اسکول کے اساتذہ کی حیثیت اجیر خاص کی ہے۔  اور اجیر خاص کے لیے ضروری ہےکہ وہ مقررہ وقت  کے مطابق اپنی ڈیوٹی سر انجام دے۔ لہذا اساتذہ کرام کا رمضان المبارک میں روزے کی وجہ سے غیر حاضر ہونا شرعاجائز  نہیں ہے۔
  2. غیر حاضری   والے دنوں کی تنخواہ بھی  حرام ہوگی۔
  3. غیر حاضری  کے باوجود وصول کی گئی تنخواہ حرام ہے۔اور جب  وہ حلال مال کے ساتھ مل گئی،تو ٓحرام مال،حلال مال کے ساتھ خلط ہوگیا۔لہذا اب غالب کا اعتبار ہوگا۔اگر حلال آمدن غالب ہے تو اس سےافطاری خریدنا درست ہوگا۔اور اگر حرام آمدن غالب ہے تو اس سے افطاری خریدنا درست نہیں ہوگا،تاہم اس سے روزے پر اثر نہ پڑے گا۔انہیں چاہیے کہ جلد از جلد حرام مال کا حساب کر کے بلا نیتِ ثواب صدقہ کردیں،تاکہ اپنے حلال اموال سے بلا کراہت استفادہ درست ہوسکے۔
  4. مدرسین کااسکول میں حاضر ہوئے بغیر حاضری لگوانا    دھوکہ اور خیانت ہے، اس کا سخت گناہ ہوگا۔
  5. روزے کی  وجہ سے مزدور کا بوجھ ہلکا کرنے والی حدیث میں مالک کو حکم ہے کہ وہ مزدور کا بوجھ ہلکا  کرے، نہ کہ خود مزدور کو کہ وہ خود ہی کام چوری شروع کردے۔
حوالہ جات

أخرج الإمام مسلم بن الحجاج في صحيحه (1/69:101)من حديث  أبي هريرة :أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: « من غشنا فليس منا »

قال العلامة الحصكفي رحمه الله: (والثاني) وهو الاجير (الخاص) ويسمى ‌أجير واحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتابالتخصيص، ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل ،كمن استؤجر شهراًللخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى .....وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل. (الدر المختار:583(

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله:  (قوله :وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي :وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام   المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوب(قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة.(رد المحتار :9/82)

قال الزيلعي رحمه الله :(والخاص يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة، وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم) أي الأجير الخاص يستحق الأجرة بتسليم نفسه للعمل عمل أو لم يعمل،سمي أجيرا خاصا وأجير وحد؛ لأنه يختص به الواحد وهو المستأجر، وليس له أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة له والأجر مقابل بها ،فيستحقه ما لم يمنعه من العمل مانع حسي كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن من العمل .(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق:6/143)

قال ابن مازه رحمه الله :رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان ‌غالب ‌ماله ‌من ‌حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه. (المحيط البرهاني5/ (367

قال  في الهندية:ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي.( الفتاوى الهندية:4/413)

محمد فیاض

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۸ ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد فیاض بن عطاءالرحمن

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب