85019 | قسم منت اور نذر کے احکام | متفرّق مسائل |
سوال
اگر بیوی شوہر کے سامنے یہ قسم اٹھائے کہ الله کی قسم تم سے کوئی جسمانی تعلق نہیں رکھوں گی یا تم سے اولاد پیدا نہیں کروں گی ،تو کیا اس قسم سے نکاح پر کوئی فرق پڑتا ہے؟اگر اس کے بعد میاں بیوی جسمانی تعلق قائم کرتے ہیں ،تو کیا گناہ ہوگا؟ اور قسم کے کفارے کا کیا ہو گا ؟اور اگر بیوی نے شوہر سے جسمانی تعلق نہیں قائم کرنے کی قسم کئی بار اٹھائی ہو ،جس کی تعداد بھی نہ معلوم ہو تو اس ساری قسموں کا کیا کفارہ ہو گا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔البتہ جب بعد میں میاں بیوی نے جسمانی تعلق قائم کرلیا،تو قسم توڑنے کی وجہ سے بیوی پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔اگر بیوی نے ایک ہی چیز کے متعلق کئی بار قسم کھا کر ایک بارتوڑ دی ،تو ایک ہی کفارہ لازم ہوگا۔اوراگر قسم کھا کر توڑ دی،پھر دوبارہ یہی قسم کھائی اور توڑ دی،تو جتنی مرتبہ قسمیں توڑی ہیں ان سب کا الگ الگ کفارہ دینا ہوگا۔اور اگر یہ یاد نہ ہو کہ کتنی مرتبہ قسم توڑی ہے،تو جتنی قسمیں توڑنے کا غالب گمان ہے اتنے کفارے دےدے۔
نیز قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو و قت کا کھانا کھلائیں ،یا ان میں سے ہر ایک کوصدقۂ فطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے(یعنی سوا دو کلو گندم یا اس کی رقم)اور اگر جو دے تو اس کا دوگنا (تقریباساڑھے چار کلو) دے،یا دس مسکینوں کو متوسط درجے کا ایک ایک کپڑے کا جوڑا دیں، اور اگر غربت کی وجہ سے اس کی طاقت نہ ہو تو تین روزے رکھیں۔
حوالہ جات
وقال الله تعالى في كفارة اليمين المنعقدة -: }فكفارته إطعام عشرة مساكين من أوسط ما تطعمون أهليكم أو كسوتهم أو تحرير رقبة فمن لم يجد فصيام ثلاثة أيام{(سورة المائدة:89)
قال ابن مازه رحمه الله : امرأة قالت لزوجها: أنت علي حرام أو قالت: حرمتك على نفسي. فهذا يمين، حتى لو طاوعته في الجماع كان عليها الكفارة، وكذلك لو أكرهها على الجماع يلزمها الكفارة .
(المحيط البرهاني :4/203)
قا ل في الهندية :تحريم الحلال يمين. كذا في الخلاصة. فمن حرم على نفسه شيئا مما يملكه لم يصر محرما.ثم إذا فعل مما حرمه قليلا أو كثيرا حنث ووجبت الكفارة .كذا في الهداية....امرأة قالت لزوجها: أنت علي حرام، أو قالت: حرمتك على نفسي فهذا يمين ،حتى لو طاوعته في الجماع كان عليها الكفارة ،وكذلك لو أكرهها على الجماع يلزمها الكفارة.( الفتاوى الهندية:2/55)
عبد الرزاق، عن ابن جريج، قال: حدثني هشام بن عروة، أن إنسانا استفتى عروة بن الزبير، فقال: يا أبا عبد الله، إن جارية لي قد تعرضت لي، فأقسمت ألا أقربها ، ثم تعرضت لي، فأقسمت ألا أقربها، ثم تعرضت لي، فأقسمت: لا أقربها، فأكفر كفارة واحدة، أو كفارات متفارقات؟ قال: هي كفارة واحدة.
( مصنف عبد الرزاق:8/323)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله: (قوله وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين) وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي. اهـ. (رد المحتار :5505/)
قال الرافعي رحمه الله:ومعلوم أن ما انفرد به لا يعول عليه، فلا يعتمد على القول بالتداخل ،بل يعتمد على ما ذكره غيره من عدم التداخل حتي يوجد تصحيح لخلافه ممن يعتمد عليه في نقله.(رد المحتار:505/5)
محمد فیاض
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۱۶ربیع الثانی ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد فیاض بن عطاءالرحمن | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |