03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میں تمہیں طلاق دیتاہوں دو مرتبہ کہنے کاحکم
85029طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

عمران نے اپنی بیوی سے کہا: "میں تمہیں طلاق دے دوں گا" تھوڑی دیر بعد پھر کہا"میں  تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتاہوں" (دو بار کہا) پھر کہا: "اگر تماشہ لگایا تو اس گھر سے  جا، اب یہاں نہیں رہے گی" یہ سب عمران کے الفاظ تھے۔  عمران کی بیوی کا نام فائزہ خان ہے۔

اس دوران تین گواہ موجود تھے:

١۔اعجاز     ۲۔آصف مختار     ۳۔علی ولد احتشام  (جو کہ لڑکی کا بھائی ہے)۔

"میں (علی ولد احتشام )گواہی  دیتاہوں کہ"جب یہ سب لوگ (لڑکی اور لڑکے والے) بیٹھے ہوئے تھے تو عمران ولد اعجاز نے بولا کہ میں نے جتنی باردیتے ہیں دی ہے"تصدیق کے لیے عمران اور فائزہ خان سے فون پر بات بھی کر سکتے ہیں"

اب سوال یہ ہےکہ :

  1. کیا یہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟
  2. اگر طلاق واقع ہوئی ہے تو اب ان دونوں کو کیا کرنا چاہیے؟ شریعت کا حکم کیا ہے؟
  3. اگر طلاق واقع ہوئی ہے تو کیا عمران اپنی بیوی کی طرف رجوع کر سکتا ہے یا نہیں؟
  4. اگر رجوع ممکن ہے تو کس طریقے سے کیا جائے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(١) "میں تمہیں طلاق دے دوں گا" سے طلاق نہیں ہوئی، اس کے بعد کے جملے "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" سے دو طلاقیں ہوئیں، اور آخری جملے: "اگر تماشہ لگایا تو اس گھر سے جا، اب یہاں نہیں رہے گی" سے شوہر کی نیت طلاق کی نہ ہو یا نیت ہو مگر عورت نے کوئی تماشہ نہیں کیا، تو اس لفظ سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔ لہٰذا مسئولہ صورت میں مجموعی طور پر دو طلاقیں ہوئیں۔

(۲)خاوند عدت کے اندر قولی یا فعلی رجوع کرے، اور اگر عدت گزر چکی ہو تو نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرے اور آئندہ اس کو صرف ایک طلاق کا اختیار رہے گا۔

(۳)جی ہاں، عدت (تین حیض تک، حاملہ ہو تو وضع حمل تک) کے دوران رجوع کر سکتا ہے اور عدت کے بعد باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کر سکتا ہے۔

(۴)جی ہاں، ممکن ہے، بشرطیکہ تین حیض ابھی تک نہ گزرے ہوں اور حاملہ ہو تو وضع حمل نہ ہوا ہو۔ رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ زبان سے کہہ دے کہ میں نے رجوع کر لیا، اس سے قولی طور پر رجوع ہو جائے گا۔ اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے بلکہ بیوی سے تعلق قائم کر لے یا خواہش و رغبت سے اسے چھوئے یا بوسہ لے لے، اس سے بھی فعلی رجوع ہو جائے گا۔

حوالہ جات

فی الھندیة:

 لا یقع الطلاق بأطلقک لأ نہ وعد.)العالمگیریة مصری کتاب الطلاق ج ۱ ص ۳۸۴)

فی بداية المبتدي (ص: 69) :

الطلاق على ضربين صريح وكناية فالصريح قوله أنت طالق ومطلقة وطلقتك فهذا يقع به الطلاق الرجعي ولا يفتقر إلى النية.

فی الهداية - (2 / 254) :

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض " لقوله تعالى: {فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ} [البقرة: 231] من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها.

فی بداية المبتدي (ص: 77) :

والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة ويستحب أن يشهد على الرجعة شاهدين فإن لم يشهد صحت الرجعة.

وفی العالمگیریة:

لوقال لھا اذھبی ای طریق شئت لا یقع بدون النیۃ وان کان فے حال مذاکرۃ الْطلاق (وقبیلہ) (عالمگیری مصری باب الکنایات ج ۱ ص ۲۵۳) ظفیر.

وفی البحر الرائق:(۳؍۳۰۳):

ان من الکنایات ثلاثۃ عشر لا یعتبر فیھا دلالۃ الحال ولا تقع الا بالنیۃ اخرجی اذھبی لا نکاح لی علیک .

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

16/ 4/ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب