85056 | جنازے کےمسائل | جنازے کے متفرق مسائل |
سوال
ہمارے پنجاب میں کچھ قدیم روایات ہیں ،جن کا تعلق کبھی خاندان سےہوتا ہے اور کبھی علاقہ سےہوتا ہے۔ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ جب کوئی اپنی بیٹی کی شادی کرواتا ہے اور وہ سسرال کے پاس چلی جاتی ہے ،ایسے ہی میری بڑی بہن کی شادی ہوئی پھر تین سال بعد(آج سے ایک سال قبل) ان کا انتقال ہو گیا۔Surgery کے اخراجات میں ہم اور اُن کے خاوندبرابر کےشریک تھے۔
جیسے ہی ان کا انتقال ہوا انہوں نے )سسرال والوں (نے ہم سےتکفین و تدفین کا خرچہ طلب کیا ،جس میں(کفن ، کھانا، قبر کھودنا) سب شامل تھے۔ ہم سے اس میں کچھ کمی رہنے کی وجہ سے آج تک وہ ہم سے ناراض ہیں اور ظنزا اُس رقم کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
برائے کرم یہ بتائیے گا کہ اگر لڑکی کی ملکیت میں گھریلو اشیاء (جہیز) اور سونےکے علاوہ نقدی نہ ہو۔ تو اُس کی تدفین کا خرچہ شرعا کس کے ذمہ ہوگا اوران روایات (رسومات )کی کیا حیثیت ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ متوفیہ بیوی کےتکفین و تدفین کا انتظام شوہر کے ذمہ ہے اگرچہ اس کی ملکیت میں مال ہو ،نہ کہ میکے والوں پر، البتہ اگر میکے والے ثواب کی نیت سے تکفین و تدفین کا انتظام کرنا چاہیں اور شوہر اس پر راضی ہو تو شرعا اس میں کوئی حرج نہیں۔ لہذا آپ لوگوں کے ذمہ متوفیہ کی تکفین و تدفین نہیں تھی ۔اور نہ وہ رقم آپ لوگوں کے ذمہ ہے جس کا طنزا وہ ذکر کرتے ہیں ۔
باقی مذکورہ رسم کہ میکے والوں پر تکفین و تدفین کے اخراجات ڈالے جاتے ہیں ناجائز اور خلاف شرع ہے اس رسم کو حکمت و اعتدال کے ساتھ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 206):
(واختلف في الزوج والفتوى على وجوب كفنها عليه) عند الثاني (وإن تركت مالا) خانية ورجحه في البحر بأنه الظاهر لأنه ككسوتها.
الفتاوى الهندية (1/ 161):
ومن لم يكن له مال فالكفن على من تجب عليه النفقة إلا الزوج في قول محمد - رحمه الله تعالى - وعلى قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - يجب الكفن على الزوج وإن تركت مالا وعليه الفتوى، هكذا في فتاوى قاضي خان.
عطاء الر حمٰن
دارالافتاءجامعۃالرشید ،کراچی
17/ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عطاء الرحمن بن یوسف خان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |