85039 | خرید و فروخت کے احکام | دین )معاوضہ جو کسی عقدکے نتیجے میں لازم ہوا(کی خرید و فروخت |
سوال
حیات اللہ کے پاس قبضہ کی زمین سرائے موہو اسلام آباد میں تھی، اس نے یہ زمین سید عبدالرحیم کو قبضے والی زمین یہ کہہ کر بیچی کہ یہ زمین صرف قبضہ والی ہے اس کے کا غذات نہیں ہیں۔
سودا ایک کروڑ 60 لاکھ میں ہوا،اُس میں سے 80 لاکھ ایڈوانس جو کہ بہت مشکل سے تو ڑ تو ڑ کر ادا کیے اور 80 لاکھ کے 4 چیک دیے جو کہ ڈس آنر ہو گیا اور وقت گزرتا رہا اور وہ ٹال مٹول کرتا رہا اور کبھی چھپ جاتا اور کبھی رابطہ ختم کر دیتا۔ بہت مشکل سے اگر کبھی رابطہ ہو جاتا تو پھر سے ٹال مٹول کر کے غائب ہو جاتا، ہم نے اس کے خلاف اسٹامپ پیپر کے ذریعہ کنسلیشن کی درخواست عدالت میں دائر کردی ۔کیونکہ معاہدے میں وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں معاہدہ ختم ہونے کا لکھا تھا، معاہدہ ساتھ منسلک ہے، پانچ ماہ گزرے کے بعد عدالت میں دعوی دائر کیاتھا اسی دوران زمین کا اصل مالک آگیا ۔ جس سے ہم نے زمین خریدی تھی، اس نے زمین میرے بھائی اور بیٹوں کے نام پر کر دی۔ اس کی وجہ تھی کہ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ تو انھوں نے پیسے ادا کیے۔ اس کے ڈیڑھ سال کے بعد یہ آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے سے بقایا رقم لے لو اور زمین میرے حوالے کر دو۔ لیکن جو پہلے سودا ہوا تھا وہ تو بغیر کا غذات کے تھا، اب جبکہ زمین کا غذات والی ہوگئی ہے تو اس کی قیمت مزید بڑھ گئی ہے۔ جبکہ ہم نے اس سے پہلے ہی سودا کینسل کر دیا تھا۔ اب اس نے ہمارے خلاف بہت سارے دعوے دائر کیے،جس پر ہمارے بہت سے اخراجات ہوئے جو کہ اخراجات سوال کے ساتھ لف ہیں۔
نوٹ: ہم نے اس کے ساتھ سودا کیا اور اس کے سودے بناءپر ہم نے لاہور اعظم مارکیٹ میں ایک دکان کا ساڑھے 3 کروڑ میں سودا کیا ۔ جوکہ ڈیڑھ کروڑ ادا کیا اور بقایا2 کروڑ ان کے رقم ادا کرنے کے بعد ہم نے ادا کرنا تھا،جو کہ انہوں نے ادا نہیں کی۔ جس سے ہماری وہ ڈیڑھ کروڑ کی رقم ڈوب گئی۔
اس پر اس نے کہا کہ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرتے ہیں۔ تو ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ تو ہم نے جج کے کہنے پر انہی کے وکیل سے رابطہ کیا تو اس کے وکیل نے کہا کہ میرے چیمبر میں اگر جر گہ ہوگا تو میں 2 لاکھ لوں گا۔ تو ہم نے اس کے وکیل کو 2 لاکھ روپے دیے تو یہ جھوٹا ثابت ہوا اور وہاں سے چلا گیا۔ اب کہتا ہے کہ میرا فیصلہ علماء کرام کریں ۔ تو ہم یہ فیصلہ لے کر آپ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ شریعت کے مطابق فیصلہ کر دیں:
- سوال یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہمارا سودا کینسل ہو یا نہیں ہوا؟شریعت اس کے بارے میں ہماری کیا رہنمائی فرماتی ہے؟
- دوسرا یہ کہ اس کے عدالت میں کیس کرنے کی وجہ سے جو اتنا ہمارا خرچہ ہوا اس کا کیا حکم ہے؟ کیا اس سے وہ خرچہ وصول کر سکتے ہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
-
سوال کے ساتھ منسلک معاہدہ میں صراحت کی گئی کی ہے کہ "اگر فریق دوم بقیہ رقم مقررہ مدت پر ادا نہ کر سکا یا چیک ڈس آنر ہوئے تو ذمہ دار فریق دوم ہو گا، فریق اول ادا شدہ رقم ضبط کرنے اور سودا ہذا منسوخ کرنے کا مجاز وحقدار ہو گا۔" اس شق کی وجہ سے وقت مقررہ پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں خریدوفروخت کا معاملہ فاسد اور ناجائز ہو گیا اور فاسد خریدوفروخت کا حکم یہ ہے کہ فریقین کے ذمہ اس کو فسخ کرنا شرعا لازم ہوتا ہے، لہذا فریقِ دوم کے وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر فریق اول نے عدالت کے ذریعہ جب سودا منسوخ کروا دیا تو شرعا یہ سودا منسوخ ہو گیا، اس کے بعد فریق دوم کو اس زمین پر کسی قسم کا تصرف کرنے کا حق باقی نہ رہا۔ البتہ معاہدہ میں جو یہ شرط لگائی گئی ہے کہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں فریق اول کو ادا شدہ رقم ضبط کرنے کا اختیار ہو گا یہ شق خلافِ شرع ہے، بلکہ سودا منسوخ ہونے کی صورت میں فریق اول کے ذمہ فریقِ دوم کو اس کی طرف سے ادا کی گئی مکمل رقم واپس کرنا ضروری ہے، فریق اول کا اس رقم کو ضبط کرنا ہرگز جائز نہیں، رقم ضبط کرنے کی صورت میں وہ سخت گناہ گار ہو گا۔
مجلة الأحكام العدلية (ص: 63،(المادة 314) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، كراتشي:
إذا لم يؤد المشتري الثمن في المدة المعينة كان البيع الذي فيه خيار النقد فاسدا.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (ج:1ص:310، المادة 314) دار الجيل،بيروت :
إذا لم يؤد المشتري الثمن في المدة المعينة كان البيع الذي فيه خيار النقد فاسدا. المراد من المدة المعينة ما يعينه الطرفان في عقد البيع فإذا أدى المشتري الثمن إلى البائع في تلك المدة أصبح البيع صحيحا ولازما أما إذا لم يؤد المشتري الثمن في تلك المدة بقي المبيع على حاله فالبيع الذي ينعقد بخيار النقد لا ينفسخ بل يكون فاسدا وإذا كان المبيع في يد المشتري وباعه بعد مرور المدة أو وهبه وسلمه آخر كان تصرفه نافذا ويضمن المشتري بدله إلى البائع. أما إذا لم يكن المبيع في
قبضته فتصرفه لا يكون نافذا (انظر المادتين 371 و 382) .
يؤخذ من هذه العبارة أن المشتري إذا لم يؤد الثمن في المدة المعينة بل بعد انقضائها فلا ينقلب البيع إلى الصحة لأنه صار فاسدا بعدم الأداء ولا يرتفع الفساد بعد ذلك.
فقہ البیوع للشيخ محمد تقي العثماني (ج:1ص:119) مكتبة معارف القراّن كراتشي:
فإن مبلغ العربون عندهم جزء من الثمن في جميع الأحوال مع خيار الشرط للمشتري، فإن نفّذ المشتري البيع، وجب عليه ما بقي من الثمن. وإن فسخ البيع بممارسة الخيار وجب على البائع أن يرد إليه مبلغ العربون.
-
فریقِ دوم نے سودا منسوخ ہوجانے کے بعد فریقِ اول کے خلاف عدالت میں جو دعاوی دائر کیے، جس کے نتیجہ میں فریق اول کو کافی اخراجات برداشت کرنے پڑے، جن میں وکلاء کو دی جانے والی رقم، سفری اخراجات اور کیس کے دیگر اخراجات کی رقوم شامل ہیں، ان کی مقدارکئی لاکھ روپے بنتی ہے، ان اخراجات کو فریقِ دوم کی طرف سے ادا کی گئی رقم سے کاٹنا درست ہے۔
البتہ یہ بات یاد رہے کہ فریقِ اول نے اس سودے کی بناء پر جو لاہور میں دکان خریدی اور اس کی قیمت وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے جوڈیڑھ کروڑ روپیہ بیعانہ ڈوب گیا اس بیعانہ کی رقم فریقِ دوم کی ادا شدہ رقم سے کاٹنا جائز نہیں۔ اسی طرح اس سودے کو کینسل کرنے کے لیے جو وکیل کو ڈھائی لاکھ روپیہ دیا گیا وہ بھی اس رقم میں سے کاٹنا درست نہیں، کیونکہ وہ رقم انہوں نے اپنے مقصد کے لیے وکیل کو دی تھی۔
حوالہ جات
سنن أبي داود ت الأرنؤوط (5/ 232) دار الرسالة العالمية:
عن أبي هريرة، أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "مطل الغنى ظلم.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 220) دار الرسالة العالمية:
قال: "وأجرة رد العارية على المستعير"؛ لأن الرد واجب عليه لما أنه قبضه لمنفعة نفسه والأجرة مؤنة الرد فتكون عليه "وأجرة رد العين المستأجرة على المؤجر" لأن الواجب على المستأجر التمكين والتخلية دون الرد، فإن منفعة قبضه سالمة للمؤجر معنى فلا يكون عليه مؤنة رده "وأجرة رد العين المغصوبة على الغاصب"؛ لأن الواجب عليه الرد والإعادة إلى يد المالك دفعا للضرر عنه فتكون مؤنته عليه.
المعايير الشرعیة: رقم(19):
1/9: یجوز للمؤسسۃ المقرضۃ ان تاخذ علی خدمات القروض مایعادل مصروفاتھا الفعلیۃ المباشرۃ، ولایجوز لھا اخذ زیادۃ علیھا، وکل زیادۃ علی
المصروفات الفعلیۃ محرمۃ.ويجب أن تتوخى الدقة في المصروفات الفعلية بحيث لايؤدي إلى زيادة تؤول إلى فائدة.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
19/ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |