85041 | طلاق کے احکام | طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان |
سوال
ایک شخص نے اپنی بیوی کو اپنے میکے سے بلانے کے لیے کال کی ، اور کال کرکے کہا کہ کل ظہر کے بعد عصر کی اذان سے پہلے گھر آجاؤ ورنہ طلاق ! یہ الفاظ کہنے کے بعد اس شخص نے کال کاٹ دی ۔۔۔۔پھر اس آدمی نے دوبارہ کال کرنے کی کوشش کی، لیکن نیٹ ورک کے مسئلہ کے وجہ سے بات نہیں ہوسکی ، پھر مذکورہ شخص نے میسج کیا اس امید پر کہ بیوی طلاق سے بچنے کے لیے واپس آجائے، میسج کے الفاظ یہ ہیں ، کل ظہر کے بعد عصر کی اذان سے پہلے کا وقت ہے ، اگر نہیں آئی تووہیں رک کر عدت گزارنا ( یعنی عدت پڑ سکتی ہے) پھر کہا کہ اگر نہیں آئی تو طلاق ہو جائے گی، اور پھر اگلے دن جو بیوی کو آنے کا کہا تھا اس دن پھر میسج کرکے خبر دار کیا ، اور کہاکہ عصر کی اذان سے پہلے آئی تو طلاق سے بچ جاؤگے ،ورنہ شریعت کے مطابق طلاق یافتہ کہلاؤگے ، پھر مذکورہ شخص بیوی کے گھر پہنچا ، بیوی چلنے کے لیے تیار تھی ، لیکن گھر سے نکلنے سے پہلے عصر کی اذان ہوگئی ، ایا ان صورتوں میں طلاق واقع ہو گئی یا نہیں ؟خلاصہ کلام یہ کہ یہ جو طلاق کا کہاتھا یا میسج کا کہاتھا ، یا عدت گزارنے کا کہا تھا ، یہ سب اس ایک طلاق کا تکرار اور تاکید تھی ، برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ اس صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر شوہر طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق کرے اور بار بار اس شرط اور طلاق کے جزا کو دہرائے تو ایسی صورت میں اصول یہ ہے کہ تکرار شرط سے تکرار جزا لازم ہوتی ہے ، لہذا ایک مرتبہ شرط کےپائے جانے سے تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ۔ اور بیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے ، البتہ اگر شوہر کی نیت دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی ہو ، اور اس کا مقصد نئے سرے سے طلاق دینا نہ ہو اور خارجی قرائن سے بھی اس کا دعوی خلاف ظاہر نہ ہو تو اس صورت میں عورت شوہر سے قسم لے کر اس پر عمل کرسکتی ہے ، کیونکہ عورت قضا کے مطابق اس وقت عمل کرنے کی پاپند ہوتی ہے جب شوہر کا دعویٰ خلاف ظاہر ہو ، لہذا مذکورہ صورت میں سائل کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی۔ طلاقِ رجعی کا حکم یہ ہے کہ شوہر عدت کے دوران رجوع کر سکتا ہے، اور اگر عدت کے دوران رجوع نہ کیا جائے تو عدت مکمل ہونے پر نکاح ختم ہو جائے گا۔ اس کے بعد باہمی رضامندی سے اور نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ المرأة كالقاضی کے اصول میں یہ تفصیل ہے کہ جب عورت کو خاوند کے دعوی پر کامل یقین ہو اور خارجی قرائن سے بھی اس کا دعوى خلاف ظاہر نہ ہو كذا في فتاوى قاضی خان علی الهندية : 218/1) تو عورت قضاء القاضی بعلمہ کے ضابطے پر عمل کر سکتی ہے، جیسا کہ حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے ایک سوال کے جواب میں اس کی اجازت دی ہے، چنانچہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:
اگر بیوی کو حقیقت امر کا کامل یقین ہو اور اس کا قلب پورے طور پر مطمئن ہو کہ شوہر نے سینکڑوں طلاقوں کی جھوٹی خبر دی ہے تو اس کا شوہر کے ساتھ تجدید نکاح کرنا جائز ہے، اس لیے کہ طلاق کی جھوٹی خبر سے قضاء وقوع طلاق کا حکم مظنہ تہمت ہونے کی بناء پر ہے۔ عورت پر حقیقت حال واضح ہونے کی صورت میں اس کے حق میں مظنہ تہمت نہیں، لہذا اس کے لیے حرمت بھی ثابت نہ ہوگی "المرأة كالقاضی کا مقتضی بھی یہی ہے، اس لیے قضاء بعلمہ میں یہ تفصیل ہے کہ خالص حدود اللہ میں جائز نہیں اور غیر حدود میں عند المتقدمين جائز ہے اور متاخرین نے فساد زمانہ کی وجہ سے اس کو ناجائز قرار دیا ہے، اس علت کا اثر صرف غیر کے لیے قضاء پر پڑتا ہے خود اپنی ذات کے لیے حکم معلوم کرنے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا، لہذا اپنے لیے اپنے علم کے مطابق عمل کرنا جائز ہے۔(احسن الفتاوی:161/5)
حوالہ جات
فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 73)
(قوله: ولو قال لها اعتدي اعتدي اعتدي) وعلمت أن المرأة كالقاضي لا ولو قال: نويت بهن واحدة فهو كما قال ديانة لاحتمال قصد التأكيد كأنت طالق طالق طالق لا قضاء لأنه خلاف الظاهر، وعلمت أن المرأة كالقاضي لايحل لها أن تمكنه من نفسها إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 305)
(قال اعتدي ثلاثا ونوى بالأول طلاقا وبالباقي حيضا صدق) قضاء لنيته حقيقة كلامه قال ابن عابدين: وإذا نوى بالأولى طلاقا وبالثانية حيضا لا غير يقع ثنتان لأن نيته الحيض بالثانية صحيحة لسبقها بإيقاع الأولى؛ ولما لم ينو بالثالثة شيئا وقع بها أخرى لثبوت المذاكرة بوقوع الأولى وإذا نوى بالكل حيضا تقع واحدة وهي الأولى لعدم سبقها بإيقاع، وصحت نيته بالثانية والثالثة الحيض لسبق الإيقاع بواحدة قبلهما وعلى هذا القياس (قوله فواحدة ديانة) لاحتمال قصده التأكيد كأنت طالق طالق فتح (قوله وثلاث قضاء) لأنه يكون ناويا بكل لفظ ثلث تطليقة، وهو مما لا يتجزأ فيتكامل فيقع الثلاث بحر عن المحيط. قال في الفتح: والتأكيد خلاف الظاهر، وعلمت أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه. اهـ.
محمد ادریس
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
18 ٖربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد ادریس بن محمدغیاث | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |