85249 | وصیت کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
عرض یہ ہے کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کے چار بیٹے ہیں ،ان میں سے ایک بیٹے کا انتقال ان کی زندگی میں ہوگیا تھا۔ انہوں نے وصیت میں لکھا ہے کہ فلان زمین ایک بیٹے کی ہوگی ،اور دوسری زمین اس دوسرے بیٹے کی ہوگی۔ گاڑی اور ایک زمین مرحوم بیٹے کی ہوگی ،اس وصیت کی شرعی کیا حیثیت ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرحوم کاتمام قابل تقسیم ترکہ اور جائیداد اس کی وفات کے وقت تمام زندہ ورثہ میں شرعی طریقے سے تقسیم ہو گی،اس کی زندگی میں وفات پا جانے والے بیٹے کاشرعا حصہ نہیں ہے۔نیز بیٹوں یا کسی وارث کے لیے کی گئی وصیت نافذنہیں ہو تی۔ البتہ اگر تمام ورثہ بالغ ہوں اور اپنے بھتیجوں کا خیال کر تے ہوئے والد کی وصیت کے مطابق ترکہ تقسیم کرلیں توکرسکتے ہیں۔
حوالہ جات
﴿یُوصِیكُمُ ٱللَّهُ فِیۤ أَوۡلَٰدِكُمۡۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَیَیۡنِۚ ﴾ [النساء: 11]
أخرج الإمام الترمذی" في سننه"(2/928)(رقم الحدیث:2120)من حديث أبي أمامۃ الباہلي رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول فيخطبۃ عام حجۃ الوداع: "إن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ قد أعطی کل ذي حقٍ حقہ، فلا وصیۃ لوارثٍ".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ:"(ولا لوارثه وقاتله مباشرة) (إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته .(حا شیہ ابن عا بدین:6/366)
قال علامۃالحصکفي رحمہ اللہ :وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا ، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه.(درالمختار:6/758)
وقال المنذري: "إنما یبطل الوصیۃ للوارث في قول أکثر أهل العلم من أجل حقوق سائر الورثۃ، فإذا أجازوھا جازت، کما إذا أجازوا الزیادۃ علی الثلث".(عمدۃ القاری:14/55)
محمد اسماعیل بن اقبال
دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی
22/ربیع الثانی/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسماعیل بن محمد اقبال | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |