85132 | سود اور جوے کے مسائل | سود اورجوا کے متفرق احکام |
سوال
میں پولیس کے محکمہ ( ڈپارٹمنٹ ) میں ملازم ہوں، میری کفالت کے اندر والدہ ،بھائی اور میری بیوی بچے ہیں، میری ماہانہ تنخواہ چالیس ہزار روپے ہے، والد کا انتقال ہو گیاہے، جس گھر میں ہم سب رہائش پذیر ہیں، وہ گھر اس محکمہ (ڈپارٹمنٹ) کی طرف سے رینٹ پر ملا ہوا ہے،والد کی جو پنشن آتی ہے اس پنشن سے اس گھر کا کرایہ ،بجلی کا بل اور گیس کا بل ادا کرتے ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ میں بینک کے ذریعے دوسال کی یا تقریبا تین سال کی اپنی سیلری نکلوانا چاہتا ہوں، جس کی رقم تقریبا دس لاکھ روپے بنتی ہے، اس کی واپس ادائیگی کا طریقہ کار یہ ہے کہ 4 سال کی مدت میں دس لاکھ پر جو اخراجات آتے ہیں، مثلاً بینک چارجز ، ڈاکومنٹس چارجز اور اس کے علاوہ چار جز و غیرہ، اور 4 سال کی مدت میں دس لاکھ پر تقریباً 16 لاکھ روپےرقم بنتی ہے ، جو کہ ہر ماہ میری سیلری سے خود بخود کٹ جائے گی ، اس کے علاوہ میرے پاس ایسی کوئی صورت نہیں ہے جس سے میں اپنی فیملی کے ساتھ گزارہ کر سکوں، یعنی ایسی متبادل صورت اختیار کر کےاپنے قرضے کو ادا کروں، کسی سے قرضہ لیتا ہوں تو ہر ماہ ادائیگی مشکل ہوگی، اس کی ایک صورت جو میری سمجھ میں آرہی تھی وہ یہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے، کیا اس صورتِ حال میں ایڈوانس سیلری لون لے سکتا ہوں یا نہیں ؟ واضح رہے کہ اس وقت معاشی صورت حال یہ ہے بجلی کا بل آتا ہے تو ٹیکسز کی بھر مار ہوتی گیس کا بل آتا ہے تو ٹیکسز کی بھر مارہوتی ہے، ماہانہ 10000 کا بل ٹیکسز کے ساتھ 18000 کا بھرنا ہوتا ہے، اگر مقررہ تاریخ تک ادا نہ کیا گیا تو الگ سے چار جزادا کرنے پڑیں گے، ورنہ بجلی کاٹ دی جائے گی ، دوسرا سوال یہ ہے کہ ایسی کونسی مجبوری ہے جس میں یہ لون لینے کی گنجائش ہے؟
وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ میں مکان اور قرض کی ادائیگی کے لیے یہ رقم لینا چاہتا ہوں اور یہ لون نیشنل بینک سے ملتا ہے، نیشنل بینک اس پر انتیس فیصد پرافٹ لیتا ہے، جو میری ماہانہ سیلری سے کاٹا جائے گا، نیزسائل نے یہ بھی بتایا کہ گورنمنٹ ہمیں ایڈوانس سیلری نہیں دیتی اور نہ ہی ہمارے ملازمت کے ایگریمنٹ میں نیشنل بینک وغیرہ سے ایڈوانس سیلری یا لون دینے کی اجازت کی تصریح ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
گورنمنٹ کے بعض ملازمین سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ حکومت ایڈوانس سیلری کسی ملازم کو نہیں دیتی، درحقیقت ایڈوانس سیلری کے نام سے مختلف بینک گورنمنٹ کے مستقل ملازمین کو قرض دیتے ہیں اور اس پر پرافٹ وصول کرتے ہیں، یہ بینک کا پرسنل معاملہ ہوتا ہے اور خاص گورنمنٹ کے ملازمین کو قرض دینے سے غرض یہ ہوتی ہے کہ چونکہ ان کی تنخواہ ہر ماہ اکاؤنٹ میں لازماً آتی ہے تو یہ تنخواہ ملازم کو وصول ہونے سے پہلے ہی قرض دینے والا بینک اپنی قسط کاٹ لیتا ہے، اس لیے بینک کو قرض واپس لینے میں کوئی دشوار نہیں ہوتی، لہذا اس قرض کا گورنمنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ باقی اگر ملازم گورنمنٹ سے قرض لینا چاہے تو حکومت ان کو ملازم کے کھاتے میں جمع شدہ جی پی فنڈ سے رقم دیتی ہے اور وہ پھر واپس وصول کرتی ہے۔
مذکورہ بالا تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ یہ رقم بینک کی طرف سے بطورِ قرض دی جاتی ہے اور پھر بینک اس پر مخصوص مقدار میں پرافٹ لیتا ہے، جو کہ سراسر سود اور حرام ہے، جس کی قرآن وسنت میں ہرگز اجازت نہیں ہے، لہذا آپ کا ایڈوانس سیلری کے نام سے بینک سے سودپرقرض کی سہولت لینا ہرگز جائز نہیں۔ باقی سودی قرض لینے کی عام حالات میں شرعاً بالكل اجازت نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص انتہائی مجبور ہو،مثلا کسی بیماری کے علاج کے لیے رقم نہ ہو اور بغیر سود کے کہیں سے قرض نہ ملتا ہو تو ان خاص حالات میں بعض فقہائے کرام رحمہم اللہ نے بقدرضرورت قرض لینے کی گنجائش دی ہے، لیکن آپ کی صورت اس حد تک مجبوری کی نہیں ہے، اگرواقعتاً آپ مجبور اور تنگدست ہیں تو آپ صدقات اور زکوة وغیرہ کی رقم وصول کرسکتے ہیں، بشرطیکہ آپ کی ملکیت میں سونا، چاندی، کرنسی، مالِ تجارت اورضرورت سے زائد گھریلو سامان (جو سال بھر استعمال میں نہ آئے) میں سے کوئی ایک یا ایک سے زیادہ ایسی چیزیں نہ ہوں، جن کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو۔
حوالہ جات
صحيح مسلم (3/ 1219) دار إحياء التراث العربي – بيروت:
عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 137) دار الكتاب الإسلامي:
وفي القنية من الكراهية يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح اھ.
الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 79) دار الكتب العلمية، بيروت:
وفي القنية والبغية: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح (انتهى)
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی
/23ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |