85111 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | دلال اور ایجنٹ کے احکام |
سوال
ہمارےبہنوئی نےہمیں پالنے کےلیے ایک بکری دینےکاکہا ہے، کہا کہ آپ اُسے پالا کریں، آخر میں یا تو بکری کو آدھے پرتقسیم کریں گے یا پھر اگر وہ جو بچےجنے، خواہ ایک ہو یا دو یا اس سے زیادہ، ان کو آپس میں آدھے حصے پرتقسیم کرلیں گے۔ کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟ کسی عالم نےکہایہ سود کےزمرےمیں آتاہے، ناجائز ہے، اگر ناجائز ہے تو اس کی جائز صورت کیا ہوسکتی ہے؟ اور کیا اس کا دودھ ہمارے لیےاستعمال کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ عقد کو کئی شرعی خرابیوں پرمشتمل ہونے کی وجہ سے حضرات فقہاءکرام نےناجائز قراردیاہے، البتہ اس کی دوجائز صورتیں درج ذیل ہیں:
- پہلی صورت یہ ہےکہ وہ بکری آپ کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے اور پالنے کی اجرت طے کرلے، یعنی عام طور پر جانور کے چارہ وغیرہ کےعلاوہ جانورپالنےکی جتنی اجرت بنتی ہےپالنےوالا اس اجرت کامستحق ہوگا، باقی بچےاور دودھ وغیرہ سب مالک (بہنوئی) کےہوں گے۔
- دوسری صورت یہ ہےکہ آپ کوبکری کا آدھا حصہ آدھی قیمت پر بیچ دے، پھر آپ کو وہ پیسے معاف کردے تو دونوں کے درمیان وہ جانور مشترک ہوجائے گا، پھر اس جانورسے جو بچے پیدا ہوں، ہر ہر بچے میں آپ اور بہنوئی برابر شریک ہوں گے اور اس صورت میں اس جانورکےدودھ اور چارےکےاخراجات میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے۔
نوٹ: مذکورہ بالا دوصورتوں پرعمل کرنا ناممکن یادشوارہوتواس کی تفصیل لکھ کر دوبارہ پوچھیں۔
حوالہ جات
قال العلامة السرخسي رحمه الله تعالى: بخلاف الزوائد فإنها تتولد من الملك فإنما تتولد بقدر الملك. (المبسوط : 15/ 6)
وقال العلامة الكاساني رحمه الله تعالى: ولا خلاف في شركة الملك أن الزيادة فيها تكون على قدر المال، حتى لو شرط الشريكان في ملك ماشية لأحدهما فضلا من أولادها وألبانها، لم تجز بالإجماع. (بدائع الصنائع : 6/ 62)
وقال العلامة نظام الدين ومن معهم رحمهم الله تعالى: ومن شرائط الإجارة..... ومنها أن تكون الأجرة معلومة. (الفتاوى العالمكيرية: 4/411)
وقالوا رحمهم الله تعالى: دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة... والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما. (الفتاوى العالمكيرية: 4/445)
راز محمد
دار الافتاء جامعۃ الرشید، کراچی
19 ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | رازمحمدولداخترمحمد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |