85163 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
ایک شخص نے نکاح کیا اور رخصتی سے قبل ہی تین طلاقیں دیدیں،اب وہ شخص خاتون کو مسلسل ورغلا رہا ہے کہ مجھ سے دوبارہ نکاح کرلو،تو کیاایسا جائز ہے کہ وہ شخص دوبارہ اس خاتون سے نکاح کرلے؟طلاقنامہ سوال کے ساتھ معلق ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
رخصتی سے پہلے بھی طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، چنانچہ اگر لڑکا ،لڑکی کے درمیان ازدواجی تعلق نہ بنا ہو اور نہ ہی خلوت صحیحہ پائی گئی ہوتوتین علیحدہ علیحدہ طلاق دینے کی صورت میں ایک ہی طلاق بائن واقع ہوجائےگی یعنی پہلی طلاق کے ساتھ ہی نکاح ختم ہوجائےگا، مزید دو طلاقیں واقع نہیں ہوں گی،لہذااس عورت پر عدت لازم نہیں اورشوہر کے ذمہ آدھا مہر دینا واجب ہے۔اب اگر دونوں باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو بغیر حلالہ شرعیہ کے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرسکتے ہیں، البتہ اس صورت میں شوہر کو آئندہ صرف دو طلاق کا اختیار ہوگا۔اور اگر لڑکی دوبارہ نکاح پرراضی نہیں ہے تو لڑکا اس کو مجبور نہیں کرسکتا ہے۔
اگر لڑکا ،لڑکی کے درمیان ازدواجی تعلق بن گیا ہو یا خلوت صحیحہ پائی گئی ہوتوتین الگ الگ طلاقوں کی صورت میں تینوں واقع ہوجاتی ہیں،اور بیوی شوہر کےلیے حرام ہوجاتی ہے۔ایسی صورت میں حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ خلوت صحیحہ" سے مراد یہ ہے کہ میاں بیوی ایسی جگہ میں تنہا جمع ہو جائیں، جہاں ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حسی، شرعی یا طبعی مانع نہ ہو، اگرچہ ایسی تنہائی کے باوجود ازدواجی تعلق قائم نہ کیا ہو، پھر بھی خلوت صحیحہ ثابت ہو جاتی ہے۔
حوالہ جات
الھدایۃ: (233/1):
" وإذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها " لأن الوقاع مصدر محذوف لأن معناه طلاقا بائنا على ما بيناه فلم يكن قوله أنت طالق إيقاعا على حدة فيقعن جملة فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة " وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق لأن كل واحدة إيقاع على حدة إذا لم يذكر في آخر كلامه ما يغير صدره……
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
25/ ربیع الثانی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |