| 85178 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
میری اہلیہ نے دو سال پہلے مجھ سے کہا تھا کہ میں نے آپ سے طلاق لے لی ہے،جبکہ میں نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کی تھی،میرا ایک مکان تھا جو کہ اہلیہ کے نام تھا،میری اہلیہ نے اس بات کو جواز بناکر کہ مکان اس کے نام تھا اور اس نے مجھ سے طلاق لے لی ہے، اس مکان کو میرے علم میں لائے بغیر فروخت کردیا،مجھے اس میں کوئی حصہ نہیں دیا،بلکہ اپنے بچوں یعنی تین بیٹوں اور ایک بیٹی میں برابر تقسیم کردیا،فی حصہ ایک کروڑ اسی لاکھ روپے۔
کیا میری اہلیہ کو اس تقسیم کا اختیار حاصل تھا؟ اور کیا مجھے اس میں حصہ ملنا چاہیے تھا یا نہیں؟ جبکہ مکان میں نے اپنے پیسوں سے خود خریدا تھا،مجھے قرآن و سنت کے مطابق بتایا جائے آیا یہ ٹھیک ہوا یا نہیں؟اس کا حل کیا ہوگا ؟
تنقیح: یہ مکان جس کے بارے میں سوال کیا گیا ہے کرایہ پر تھا اور اس کے کرایہ وغیرہ کے معاملات میاں بیوی دونوں مشترکہ طور پر دیکھتے تھے،نیز سائل کا کہنا ہے کہ اس نے یہ مکان ہبہ کی نیت سے بیوی کے نام نہیں کروایا تھا،بلکہ انتظامی طور پر کروایا تھا اور نہ اس نے ہبہ وغیرہ کے الفاظ کہے تھے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر آپ نے مذکورہ مکان بیوی کو مالک بنانے کی نیت سے اسے ہبہ کرکے اس کے نام پر منتقل کردیا تھا اور اس کے قبضے میں بھی دے دیا تھا،یعنی اس مکان کے تمام اختیارات بیوی کے سپرد کردیئے تھے تو پھر یہ مکان اس کی ملکیت میں داخل ہوگیا تھا اور اس میں اس کی جانب سے کئے گئےتصرفات شرعا نافذ ہوں گے۔
لیکن اگر آپ نے یہ مکان بیوی کو ہبہ نہیں کیا تھا اور نہ اسے مالک بنانے کی نیت سے اس کے نام کروایا تھا،بلکہ محض انتظامی طور پر اس کے نام منتقل کیا تھا تو پھر یہ مکان بدستور آپ کی ملکیت میں رہا ، آپ کی اجازت کے بغیر بیوی کو اس میں تصرف کا اختیار حاصل نہیں تھا اور اس کی جانب سے کئے گئے تصرفات(مکان کو فروخت کرنا اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم کو اولاد کے درمیان تقسیم کرنا) آپ کی اجازت پر موقوف رہیں گے،اگر آپ اجازت دیں گے تو نافذ ہوجائیں گے،ورنہ انہیں فسخ کرنا لازم ہوگا۔
حوالہ جات
"الدر المختار " (5/ 688):
"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح".
"فقہ البیوع" (1/ 226):
"وماذکرنا من حکم التلجئة یقاربہ ما یسمی فی القوانین الوضعیة عقودا صوریة...
وھی ان تشتری ارض باسم غیر المشتری الحقیقی وتسجل الارض باسمہ فی الجھات الرسمیة وذلک لاغراض ضریبیة او لاغراض اخری ولکن المشتری الحقیقی ھو الذی دفع ثمنہ.....
وکذلک القانون الوضعی فی بلادنا یعترف بان المشتری الحقیقی ھو الذی یدفع الثمن اما الذی سجل العقد باسمہ صورة،فانہ یعتبر امینا للمالک الحقیقی ووکیلا لہ لاتخاذ الاجراءات القانونیة".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
25/ربیع الثانی1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |


