03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اگرمیں نے یہ کام کیا توبیوی مجھ پرحرام ہوگی،کہنےکا حکم
85250طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

میں آج کل ملک سے باہر ہو اور بیوی کے ساتھ فون پر گفتگو ہوتی ہے ۔ آج بہت سالوں بعد کسی بات پر فون پر بحث ہوئی اور بیوی اپنی ضد کر رہی تھی ۔ میں خفا ہوا اور غصہ میں آکر اس سے کہا کہ اگر آئندہ میں نے آپ کو کال کی تو آپ مجھ پر حرام ہوگی اور کال بند کی۔ دل سے میں اسکوں پیار کرتا ہو اور چھوڑنے کا کوئی خیال یا ارادہ نہیں ۔ اور نہ کوئی ایسی لڑائی جھگڑے کا ماحول ہوتا ہے اور نہ بیوی نے طلاق مانگی ہے۔ اس صورتحال میں کیا حکم ہے شریعت کا؟ اگر میں دوبارہ اسے کال کرتا ہوں تو کیا ہوگا؟ شکریہ ۔ السلام و علیکم

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 جب بیوی کی طرف نسبت کرکے حرام کا لفظ بولاجائےتوہمارےعرف میں وہ صریح طلاق کے حکم میں ہے اور الفاظِ صریح میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا۔ لہذا  صورت مسئولہ میں اگر آپ نے بیوی کوکال کی توآپ کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائےگی   ۔ البتہ اگر بیوی آپ کو کال کرتی ہےتو طلاق واقع نہ ہوگی۔

حوالہ جات

قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالیٰ: ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام ،فيقع بلا نية للعرف.(الدرالمختارمع ردالمحتار:(252/3

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ:قوله:( فيقع بلا نية للعرف) :أي فيكون صريحا لا كناية.....وإنما كان ما ذكره صريحا ؛لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال...وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن، للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية..... ولذا قال المصنف في منحه: أنه في ديارنا صار العرف فاشيا في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره، فيجب الإفتاءبه من غير نية، كما هو الحكم في الحرام يلزمني ،وعلیَّ الحرامُ.

(ردالمحتارعلی الدرالمختار:(252/3

 وقال رحمہ اللہ تعالیٰ أیضاً:وإن كان الحرام في الأصل كناية يقع بها البائن ؛لأنه لما غلب استعماله في الطلاق لم يبق كناية، ولذا لم يتوقف على النية أو دلالة الحال…..والحاصل :أنه لما تعورف به الطلاق، صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن).ردالمحتارعلی الدرالمختار: (300,299/3

قال العلامۃ  زین الدین رحمہ اللہ تعالیٰ:قال في النهر ويؤيده ما سيأتي في قوله "كل حل علي حرام ،أو أنت علي حرام، أو حلال اللہ علي حرام"حيث قال المتأخرون: وقع بائنا بلا نية لغلبة الاستعمال بالعرف.....وفي تصحيح القدوري "ومن الألفاظ المستعملة في مصرنا وريفنا: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام".(البحرالرائق(281/3:

جمیل الرحمٰن بن محمدہاشم

  دارالافتاءجامعۃ الرشید،کراچی

26      ربیع الثانی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

جمیل الرحمٰن ولدِ محمد ہاشم

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب