85251 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
السلام علیکم! کچھ عرصہ پہلے میری بیوی کی کسی بات پر ہم دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی.جس کی وجہ سے میں شدید غصے میں آ گیا اور کہا کہ اگر دوبارہ ایسی غلطی ہوئی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ چند منٹ بعد (2یا 3منٹ)اپنی والدہ کے ساتھ جھگڑے میں میرے منہ سے طلاق، طلاق، طلاق کے الفاظ نکل گئے۔ میں نے نہ ہی اپنی بیوی کو مخاطب کیا اور نہ ہی اپنی بیوی کی نسبت سے یہ الفاظ کہے۔میں یہ حلف اٹھاتا ہوں کہ میرا ارادہ یا نیت ہرگز اپنی بیوی کو خودسے جدا کرنے کا نہیں تھا۔ہوا یہ کہ والدہ نے کمرے میں آتے ہی مجھے بہت بددعائیں دینا شروع کر دی تھیں ، ان کی باتوں سے مجھے اتنا شدید غصہ آیا کہ میری زبان اور میرا دل میرے کنٹرول میں نہیں رہا ، میرا سارا جسم کانپنے لگا، اس وقت میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے۔ میرے ساتھ اکثر ایسا ہو جاتا ہے کہ جب مجھے شدید غصہ آتا ہے تو میں اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رکھ سکتا۔اس وقت مجھے پتہ نہیں چلتا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور مجھے کیا نفع یانقصان ہو سکتا ہے؟ کئی دفعہ میں نے ایسی ہی حالت میں خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کی لیکن میرے بھائیوں نے مجھے پکڑ لیا تھا۔ میں قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کے لیے بھی تیار ہوں کہ میری نیت یا ارادہ ہر گز اپنی بیوی کو خود سے جدا کرنے کا نہیں تھا۔
برائے مہربانی میری اس کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں میرا یہ مسئلہ حل فرما ئیں ۔ جب میں نے" طلاق طلاق طلاق" کہا تب میری بیوی وہاں موجود تھی اور میری والدہ محترمہ کے پیچھے کھڑی تھی اس وقت میں والدہ محترمہ سے جھگڑ رہاتھا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
طلاق کا تعلق الفاظ سے ہوتا ہے۔ نیت اس وقت دیکھی جاتی ہے جب الفاظ میں ابہام ہو ۔ نیز طلاق عموماً شدیدغصے کی حالت میں ہی دی جاتی ہے اور غصے کی حالت میں دی گئی طلاق شرعاً معتبر ہوتی ہے۔ جب آپ نے تین مرتبہ طلاق کے الفاظ کہے تو اس وقت آپ کی بیوی وہیں موجود تھی اور اس سے پہلے اسی سے جھگڑا چل رہا تھا، لہذا یہ کہنا کہ طلاق کی نیت نہیں تھی یا نسبت نہیں کی ،اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔ ان الفاظ سے آپ کی بیوی کوتین طلاقیں ہو گئی ہیں۔ اب نہ رجوع ہو سکتا ہےاور نہ ہی دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ البتہ اگر یہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرے اور پھراس سے طلاق ہو جائےیا شوہر فوت ہو جائے اور وہ عورت بھی راضی ہو تو عدت گزارنے کے بعد آپ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ : فما لا يستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح، يقع بلا نية.
(رد المحتار :3/ 247)
وقال ایضاً: أنه لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودة، ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق، فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته ..........لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها، لا بطلاق غيرها، فقوله :إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها ؛لأنه يحتمله كلامه. (رد المحتار:3/ 248)
وقال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ : وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر.
(بدائع الصنائع :3/ 102)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: فروع: كرر لفظ الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين.
(الدر المختار ص213)
وقال جمع من العلماء رحمھم اللہ: وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة، لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها، ثم يطلقها ،أو يموت عنها كذا في الهداية. ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها ،أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير.(الفتاوى الهندية:1/ 473)
سعد امین بن میر محمد اکبر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
26/ربیع الثانی1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سعد امین بن میر محمد اکبر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |