85265 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | کرایہ داری کے متفرق احکام |
سوال
کیا ٹریول ایجنسی پر یہ لازم ہے کہ لوگوں کو بتائیں کہ آپ کو اپنے وقت سے دو یا تین گھنٹے پہلے ائیر پورٹ پہنچنا ہے؟کیونکہ عام لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ مقررہ وقت پر پہنچتے ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ٹریول ایجنسی کا کام شرعی اعتبار سے "اجارہ" یعنی خدمات (Services) فراہم کرنے اور اس کا عوض وصول کرنے کا معاملہ ہے اور خدمات فراہم کرنے میں اگرچہ شرعاً یہ بات شامل نہیں کہ ٹریول ایجنسی اپنے کسٹمر کو بتائے کہ مقررہ وقت سے دو یا تین گھنٹے پہلے ائیرپورٹ پہنچنا ضروری ہے(اگرچہ ٹریول ایجنسی کے بقول :کہ ہم تین یا چار دن پہلے جب ٹکٹ ،ویزہ وغیر ہ جب کسٹمرکے حوالے کرتے ہیں تو ان کی پوری راہنمائی کرتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ مقررہ وقت سے پہلے دو یا تین گھنٹے پہلے پہنچنا ہے) ،نہ اس کی وجہ سے ٹریول ایجنسی پر کوئی ضمان آئے گا ،بلکہ کسٹمر کی اپنی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ وقت سے پہلے ائیر پورٹ پہنچے تاکہ تمام ضرور ی کاروائیاں بروقت کر سکے ،ٹریول ایجنسی کو بھی اخلاقی طور پر اپنے کسٹمر کی راہنمائی کرنی چاہئے ،کیونکہ مقررہ وقت پر پہنچنے کے بعد رش اور چیکنگ کی وجہ سے اس کی ٹکٹ کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے اور ہر مسلمان کو نقصان سے بچانا ضروری ہے۔
حوالہ جات
مصنف ابن أبي شيبة (5/ 229):
25534 - حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ التَّيْمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحَدُكُمْ مِرْآةُ أَخِيهِ، فَإِذَا رَأَى أَذًى فَلْيُمِطْهُ عَنْهُ».
صحيح مسلم (4/ 2020) :
126 - (2617) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُشِيرُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَحَدُكُمْ لَعَلَّ الشَّيْطَانَ يَنْزِعُ فِي يَدِهِ فَيَقَعُ فِي حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ».
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 4):
هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية وسيجيء.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 230):
"الإجارة: عقد على المنافع بعوض" لأن الإجارة في اللغة بيع المنافع، والقياس يأبى جوازه؛ لأن المعقود عليه المنفعة وهي معدومة، وإضافة التمليك إلى ما سيوجد لا يصح إلا أنا جوزناه لحاجة الناس إليه، وقد شهدت بصحتها الآثار وهو قوله عليه الصلاة والسلام: "أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه" وقوله عليه الصلاة والسلام: "من استأجر أجيرا فليعلمه أجره".
عبدالعلی
دارالافتا ء جامعۃالرشید،کراچی
27/ ربیع الثانی /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالعلی بن عبدالمتین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |