85428 | طلاق کے احکام | طلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ طارق نامی شخص کہتاہے کہ میں نے اپنی بیوی کی طرف غصے کی حالت میں تین پتھر پھینکےاور کہا "تومجھ پر طلاق ہے،آج کے بعد تو میری بہن ہے"۔جبکہ اس کی بیوی کہتی ہے کہ میرے شوہرنے میری طرف ایک پتھر پھینکا اور کہا تجھے ایک طلاق ہو ،دوسرا پھینکا اور کہا تجھے دو طلاق ،ہوتیسرا پتھر پھینکا اور کہا تجھے تین طلاق ہو۔اس کے بعد کہا کہ دنیا اور آخرت میں تو میری بہن ہوگئی ۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں کس کا قول معتبر ہےاور کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟ جبکہ کسی کے پاس شرعی گواہ موجود نہیں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں جبکہ بیوی کے پاس شرعی گواہ نہیں تو قضاءً شوہر یعنی طارق کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہو گا ، لہذا قضاءً ایک طلاق رجعی واقع ہو گی۔
اگر بیوی کو یقین ہے کہ واقعہ ایسے ہی ہے جیسے میں بیان کر رہی ہوں تو اس کے لیے بہر صورت شوہر سے ازدواجی تعلق رکھناجائز نہیں ۔ ایسی صورت میں جب ان دونوں کا نباہ ممکن نہیں تو شوہر کو چاہیے کہ وہ طلاقِ بائن دے کر باضابطہ الگ ہو جائے۔
حوالہ جات
قال جمع من العلماء رحمھم اللہ:(الفصل الأول في الطلاق الصريح).وهو كأنت طالق، ومطلقة، وطلقتك، تقع واحدة رجعية وإن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئا، كذا في الكنز.
(الفتاوى الهندية:1/ 354)
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قوله :(ولم يقل هكذا) أي بأن قال: أنت طالق وأشار بثلاث أصابع ونوى الثلاث ولم يذكر بلسانه فإنها تطلق واحدة .خانية. قوله :(لفقد التشبيه) أي بالعدد، قال القهستاني: لأنه كما لا يتحقق الطلاق بدون اللفظ ،لا يتحقق عدده بدونه(رد المحتار :3/ 275)
وقال جمع من العلماء: لو قال لها: "أنت أمي" لا يكون مظاهرا ،وينبغي أن يكون مكروها ،ومثله أن يقول: يا ابنتي ،ويا أختي ،ونحوه .( الفتاوى الهندية:1/507)
وقال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: (فإن اختلفا في وجود الشرط) أي ثبوته ليعم العدمي (فالقول له مع اليمين)؛ لإنكاره الطلاق( الدرالمختار،ص: 221)
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها، بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه ،وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله. (رد المحتار:3/ 251)
سعد امین بن میر محمد اکبر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
07/جمادی الاولی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سعد امین بن میر محمد اکبر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |