85334 | نماز کا بیان | قضاء نمازوں کا بیان |
سوال
اگر کسی شخص کی تقریباً تین سال کی نمازیں قضا ہوئی ہوں اور اسے معلوم نہ ہو کہ کتنی نمازیں رہتی ہیں، تو وہ کتنی نمازیں ادا کرے گا اور کیسے ادا کرے گا؟اگر کوئی شخص پندرہ سال کی عمر سے پہلے بالغ ہو گیا ہو تو کیا اسے پندرہ سال سے پہلے جو نمازیں قضا ہوئی ہیں وہ بھی پڑھنی ہوں گی یا صرف پندرہ سال کے بعد قضا ہونے والی نمازیں ہی ادا کرنی ہوں گی؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
قضا نمازوں کو ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے لے کر اب تک آپ سے جتنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں اُن کاحساب کریں، اگر قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہو تو ترتیب سے ان نمازوں کو قضا کرنا چاہیے، اور اگر متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہواور یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو (جیساکہ آپ کا مسئلہ ہے) تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازہ اور تخمینہ لگالیں اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہوں احتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردیں،جو فرض نماز فوت ہوئی ہو اس کو قضا کرتے وقت اتنی ہی رکعتیں قضا کرنی ہوں گی جتنی فرض یا واجب رکعتیں اس نماز میں ہیں، مثلاً فجر کی قضا دو رکعت ، ظہر اور عصر کی چار، چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی، عشاء کی نماز قضا کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنی ہوگی، قضا صرف فرض نمازوں اور وتر کی ہوتی ہے۔ قضا نماز کی نیت میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا پڑھی جا رہی ہے اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کیوجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا کی ہیں ان میں سے پہلی فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں ، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے۔باقی نماز کی فرضیت شرعاً بلوغت سے ہے، اس لیے قضا نمازوں کا حسا ب بھی بلوغت سے لگائیں۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين ( رد المحتار) (6/ 153)
"(بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال) والأصل هو الإنزال (والجارية بالاحتلام والحيض والحبل) ولم يذكر الإنزال صريحاً؛ لأنه قلما يعلم منها (فإن لم يوجد فيهما) شيء (فحتى يتم لكل منهما خمس عشرة سنةً، به يفتى) لقصر أعمار أهل زماننا (وأدنى مدته له اثنتا عشرة سنةً ولها تسع سنين) هو المختار، كما في أحكام الصغار.(قوله: به يفتى) هذا عندهما، وهو رواية عن الإمام، وبه قالت الأئمة الثلاثة، وعند الإمام حتى يتم له ثماني عشرة سنةً ولها سبع عشرة سنةً. (قوله: لقصر أعمار أهل زماننا) ولأن «ابن عمر - رضي الله تعالى عنهما - عرض على النبي صلى الله عليه وسلم يوم أحد وسنه أربعة عشر فرده، ثم يوم الخندق وسنه خمسة عشر فقبله»، ولأنها العادة الغالبة على أهل زماننا، وغيرهما احتياط فلا خلاف في الحقيقة والعادة إحدى الحجج الشرعية فيما لا نص فيه نص عليه الشمني وغيره، در منتقى".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76)
"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره. (قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت".
محمد ادریس
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
2 ٖجماد الاولی 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد ادریس بن محمدغیاث | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |