85379 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
نو سال پہلے میرے شوہر نے مجھ سے کہا تھا کہ "تم سے میرا کوئی تعلق نہیں" اور "تم میرے گھر سے نکل جاؤ"۔ اسی طرح بہت مرتبہ انہوں نے یہی الفاظ دہرائے۔ بعد میں میرے جیٹھ اور نند کے بیٹے نے میرا نکاح کر دیا۔ اب میرے شوہر نے مجھے دوبارہ یہی الفاظ کہے ہیں، لیکن اب انہوں نے "طلاق دیتا ہوں" اور "میرے گھر سے اپنے بچوں کو لے کر نکل جاؤ" جیسے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ برائے مہربانی میری رہنمائی کریں کہ میں اب کیا کروں،میں USA میں ہوں۔
میرے شوہر کا نام عامر ہے، وہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ وہ مجھ پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں، شک بھی کرتے ہیں، گالی بھی دیتے ہیں، راتوں کو گھر نہیں آتے اور شراب بھی پیتے ہیں۔ جب میرے بچے ہوتے تھے تو وہ ان کا DNA ٹیسٹ کرواتے تھے۔ اگر میں باتھ روم میں جاؤں تو باہر بیٹھ کر یہ شک کرتے ہیں کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ جب بھی کہیں جانا ہوتا ہے تو واپسی پر لڑائی کرتے ہیں کہ "وہ تمہیں دیکھ رہا تھا" یا "وہ تمہارا یار تو نہیں ہے"، کسی کو بھی وہ میرا یار بنا دیتے ہیں۔ میری ساس بھی ان کی ان حرکتوں سے پریشان ہیں۔
میرے شوہر اکثر کہتے ہیں، "میرا تمہارے سے کوئی تعلق نہیں، تم میرے گھر سے نکل جاؤ"۔ اس مرتبہ تو بچوں کے سامنے ہی انہوں نے کہا کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"۔ میں عزت دار گھر سے ہوں، ایسی باتیں سن سن کر میں پوری پوری رات روتی رہتی ہوں۔ وہ مجھے خرچ نہیں دیتے تھے، اس لیے میں نے اسٹور میں جاب شروع کی ہے، لیکن وہ کارڈ سے خود پیسے نکلوا لیتے ہیں۔
میرا بڑا بیٹا 16 سال کا ہے اور اب وہ اپنے باپ کی یہ حرکتیں دیکھتا ہے تو میری طرفداری کرتا ہے کہ آپ امی کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں، تو شوہر اسے بھی گالیاں دیتے ہیں اور اب تو اسے مارنا بھی شروع کر دیا ہے، یہاں تک کہ ہاتھ میں بیٹ مار کر فریکچر بھی کر دیا ہے۔ تقریباً 40 سے 50 مرتبہ وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ "میرا اور تمہارا کوئی تعلق نہیں، تم میرے لیے حرام ہو"۔
میں کیا کروں؟ میرے جیٹھ کہہ رہے ہیں کہ دوبارہ نکاح کر لیں عامر سے تاکہ رشتہ بچ جائے۔ برائے مہربانی مجھے جلد جواب دیں تاکہ مجھے سکون ملے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں اگر "تم سے میرا کوئی تعلق نہیں" اور "تم میرے گھر سے نکل جاؤ" میں سے کسی لفظ سے شوہر کی نیت طلاق کی تھی تو اس سے پہلی طلاق واقع ہوگئی۔ پھر تجدیدِنکاح کے بعد جب کہا "طلاق دیتا ہوں" تو اس سے دوسری طلاق واقع ہوگئی، کیونکہ یہ طلاق میں صریح ہے، اور چونکہ صریح کے بعد بائن طلاق ہو سکتی ہے، تو اگلےالفاظ "میرے گھر سے اپنے بچوں کو لے کر نکل جاؤ"یامیرا اورتمہارا کوئی تعلق نہیں" سے شوہر کی نیت طلاق کی تھی، تو اس سے تیسری طلاق واقع ہوگئی۔خاوند کا اس کے بعد یہ کہنا کہ "تم میرے لیے حرام ہو" (جیسا کہ سوال کے آخر میں لکھا گیا ہے) یہ قرینہ ہے کہ شوہر نے طلاق کی نیت کی تھی۔ نیت نہ بھی کی ہو تو بھی "تم میرے لیے حرام ہو" خود طلاق میں صریح بائن ہے۔ لہٰذا، بحیثیت مجموعی صورت مسئولہ میں تین طلاقیں واقع ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہوگئی ہے۔ موجودہ حالت میں حلالہ کے بغیر میاں بیوی میں نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی نکاح۔ لہٰذا، عورت عدت (تین حیض) گزار کر آزاد ہو گی اور اس کے بعد جہاں چاہےوہ شادی کر سکتی ہے۔
حوالہ جات
وفی الفتاوى الهندية (1 / 376):
"ولو قال لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع، كذا في العتابية."
وفی العالمگیریة:
لوقال لھا اذھبی ای طریق شئت لا یقع بدون النیۃ وان کان فے حال مذاکرۃ الْطلاق (وقبیلہ) وفی الفتاوی لم یبق بینی وبینک عمل ونوی تقع (عالمگیری مصری باب الکنایات ج ۱ ص ۲۵۳) ظفیر.
وفی ’’البحر الرائق‘‘:
ان من الکنایات ثلاثۃ عشر لا یعتبر فیھا دلالۃ الحال ولا تقع الا بالنیۃ اخرجی اذھبی لا نکاح لی علیک (۳؍۳۰۳)
وفی کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ:
ما یصلح ردا منھا اخرجی وحکم ھذا القسم ان الطلاق لا یقع الا بالنیۃ (۳؍۳۴۲)
الدر المختار للحصفكي - (ج 3 / ص 336)
(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة .( والبائن يلحق الصريح )
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ تعالیٰ:
الدرالمختارمع ردالمحتار:(252/3
ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام ،فيقع بلا نية للعرف.(
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ:
قوله:( فيقع بلا نية للعرف) :أي فيكون صريحا لا كناية.....وإنما كان ما ذكره صريحا ؛لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال...وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن، للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية..... ولذا قال المصنف في منحه: أنه في ديارنا صار العرف فاشيا في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره، فيجب الإفتاءبه من غير نية، كما هو الحكم في الحرام يلزمني ،وعلیَّ الحرامُ.(ردالمحتارعلی الدرالمختار:(252/3
وقال رحمہ اللہ تعالیٰ أیضاً:
وإن كان الحرام في الأصل كناية يقع بها البائن ؛لأنه لما غلب استعماله في الطلاق لم يبق كناية، ولذا لم يتوقف على النية أو دلالة الحال…..والحاصل :أنه لما تعورف به الطلاق، صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن).ردالمحتارعلی الدرالمختار: (300,299/3
قال العلامۃ زین الدین رحمہ اللہ تعالیٰ:قال في النهر ويؤيده ما سيأتي في قوله "كل حل علي حرام ،أو أنت علي حرام، أو حلال اللہ علي حرام"حيث قال المتأخرون: وقع بائنا بلا نية لغلبة الاستعمال بالعرف.....وفي تصحيح القدوري "ومن الألفاظ المستعملة في مصرنا وريفنا: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام".(البحرالرائق(281/3:
فی سنن ابن ماجة (ج 2 / ص 152)
حدثنا محمد بن رمح . أنبأنا الليث بن سعد ، عن إسحاق بن أبى فروة ،عن أبى الزناد ، عن عامر الشعبى قال :
قلت لفاطمة بنت قيس :حدثينى عن طلاقك . قالت : طلقني زوجي ثلاثا ، وهو خارج إلى اليمن .فأجاز ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم .
الفتاوى الهندية - (ج 10 / ص 196)
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز .أما الإنزال فليس بشرط للإحلال.
أحكام القرآن للجصاص ج: 5 ص: 415
قوله تعالى: ( فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ﴾ منتظم لمعان: منها تحريمها على المطلق
ثلاثا حتى تنكح زوجا غيره، مفيد في شرط ارتفاع التحريم الواقع بالطلاق الثلاث العقد والوطء جميعا; لأن النكاح هو الوطء في الحقيقة، وذكر الزوج يفيد العقد، وهذا من الإيجاز واقتصار على الكناية المفهمة المغنية عن التصريح. وقد وردت عن النبي صلى الله عليه وسلم أخبار مستفيضة في أنها لا تحل للأول حتى يطأها الثاني، منها حديث الزهري عن عروة عن عائشة: أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا نبي الله إنها كانت تحت رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير وإنه يا رسول الله ما معه إلا مثل هدبة الثوب فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: "لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك".
السنن الكبرى للبيهقي (7/ 552)
أخبرنا أبو أحمد المهرجاني، أنا أبو بكر بن جعفر المزكي، نا محمد بن إبراهيم البوشنجي، نا ابن بكير، نا مالك، عن ابن شهاب، عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، عن محمد بن إياس بن البكير، أنه قال: طلق رجل امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها ثم بدا له أن ينكحها فجاء يستفتي فذهبت معه أسأل له فهذه رواية سعيد بن جبير وعطاء بن أبي رباح ومجاهد وعكرمة وعمرو بن دينار فسألت أبا هريرة وعبد الله بن عباس عن ذلك فقالا له: " لا نرى أن تنكحها حتى تتزوج زوجا غيرك " قال: فإنما كان طلاقي إياها واحدة فقال ابن عباس: " إنك أرسلت من يدك ما كان لك من فضل "ومالك بن الحارث ومحمد بن إياس بن البكير ورويناه عن معاوية بن أبي عياش الأنصاري كلهم عن ابن عباس أنه أجاز الطلاق الثلاث وأمضاهن.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
8/5/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |