03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لفظ "آزاد” سے نیت کے وقت طلاق کا حکم
85347طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسائل کے بارےمیں کہ

میرا نام مریم ہے اور میرے تین بچے ہیں۔ میری شادی کو 9 سال ہوچکے ہیں، اور ہم اپنی زندگی میں بہت خوش تھے۔ شادی کے 9 سال بعد میرے شوہر نے مجھے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ میں ان کے کام نہیں کرتی اور بچوں کا خیال نہیں رکھتی۔ یہ بات ان کو 9 سال بعد یاد آئی۔ پھر، میرے شوہر نے اگلے ہی دن نکاح کیا اور مجھے تین بچوں کے ساتھ گھر سے نکال دیا۔ پھر وہ ہر اس بات پر عمل کرتے رہے جو ان کی دوسری بیوی کہتی، یہاں تک کہ انہوں نے مجھے کہا کہ "میں تمہیں فارغ کر دوں گا"۔ واضح رہے کہ ان کی دوسری بیوی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔

پھر ایک رات انہوں نے مجھے کہا کہ "تم حنیف عبد المنان کے نام سے آزاد ہو"۔ اس کے بعد وہ اپنی بات سے مکر گئے اور میرے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں تھا۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد انہوں نے مجھے دوبارہ کہا کہ "میں نے نکاح ختم کیا ہے" اور یہ الفاظ دو مرتبہ کہے۔ اس کے باوجود، وہ بار بار اپنی بات سے مکر جاتے ہیں۔ وہ اکثر جھوٹ بولتے ہیں، ان کی نماز کی حالت بھی خراب ہے۔ سالوں سے جمعہ کی نماز کے علاوہ وہ اور کوئی نماز نہیں پڑھتے، سوائے رمضان کے۔ میرے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اور ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا ذکر یہاں نہیں کرسکتی۔

بچوں کی ضروریات کا بھی خیال نہیں رکھتے؛ پانچ مہینوں میں انہوں نے ہمیں صرف پچاس ہزار روپے خرچ کےلیےدیے ہیں ،وہ ہماری خبرگیری نہیں کرتے۔ اب وہ مجھے واپس گھر آنے کا کہہ رہے ہیں۔

براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں کہ آیا مجھے ان کے پاس واپس جانا چاہیے یا نہیں؟ میری رہنمائی فرمائیں ،میں گھر ٹوڑنا نہیں چاہتی بلکہ بسانامیرا مقصد ہے، کیونکہ میرے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

"میں تمہیں فارغ کر دوں گا" کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ شوہر نے جو دوسرا لفظ "تم حنیف عبد المنان کے نام سے آزاد ہو" کہا ہے، اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوئی ہے، کیونکہ شوہر نے کچھ عرصہ بعد یہ بھی کہاہے کہ "میں نے نکاح ختم کیا ہے"۔ یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ پہلے لفظ سے شوہر نے طلاق کی نیت کی تھی۔ لہٰذا، مسئولہ صورت میں ایک طلاق بائن واقع ہوئی ہے۔اوربائن کے بعد نکاح ختم ہونے کی وجہ سے چونکہ دوسری بائن واقع نہیں ہو تی، اس لیے دوسری بار آزاد کالفظ کہنے سے کچھ نہیں ہوا۔لہذا مجموعی طور پر صرف ایک بائن طلاق واقع ہوئی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ شوہر رجوع تو نہیں کر سکتا، البتہ میاں بیوی باہمی رضامندی سے نئے مہر پر گواہوں کی موجودگی میں نکاح  اگرکرنا چاہتے ہیں توکر سکتے ہیں،اوراس کے بعد اکٹھے رہ سکتے ہیں،تاہم آئندہ شوہر کو صرف دو طلاق کا اختیار رہے گا۔

صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر ان الفاظِ طلاق سے منکر ہوجیسے کہ آپ نے لکھا اورآپ نے خوداپنے کانوں سے ان کے منہ سے یہ الفاظ سنے ہوں تو پھر اگرآپ کے پاس دو معتبر مرد یا  ایک مرد اوردومعتبر عورتوں کی گواہی مکمل ہوتوپھرتو ایک طلاق واقع سمجھی جائیں گی،اورشوہر کے انکارکا کوئی اعتبارنہیں ہوگا،اب آپ دونوں میاں بیوی  کے لیےبغیرجدیدنکاح کے اکھٹے رہنا صحیح نہیں ۔اوراگر آپ کے پاس گواہ پورے نہ  ہوں تو طلاق کا ثبو ت گو قضاءً نہیں ہوگا،مگر جب آپ نے طلا ق کےمذکورہ الفاظ خود شوہر سےسنے ہیں اور آپ  کو پورا یقین بھی ہے تو ایسی صورت میں  آپ کے لئےاب بھی  حلال نہیں   کہ جدیدنکاح کے بغیر شوہر کو اپنی ذات پر قدرت دیں  اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کریں، لہذا یاآپ دونوں دوبارہ جدید مہر کےساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح کریں اوراگرنکاح  نہیں کرنا چاہتی ہے تو پھراس سےبچنے کی ہر ممکن کوشش کریں ، مال دے کر خلع حاصل کرلیں یا شرعی قاضی یا شرعی پنچایت کے ذریعہ کوشش کروائیں  ، اگراس طرح نہ ہوسکے تو عدالت کے ذریعے بھی خلع حاصل کرسکتی ہے ،کیونکہ عام حالات مین عدالتی خلع کا اعتبارنہیں ہوتا لیکن جب آپ ویسے ہی طلاق شدہ ہیں تو ایک ثبوت اورقانونی حمایت کےلیے عدالتی فیصلہ حاصل کرسکتی ہے ،اگر ان میں سے کسی طریقے سے آپ کےلیے جان خلاصی ممکن نہ ہو تو اس  مجبوری کی صورت میں آپ پر اس شخص کے ساتھ رہنے کا گناہ نہیں ہوگا،بلکہ  پورا گناہ شوہراور اس کی حمایت کرنے والو ں پر ہوگا۔

حوالہ جات

فی الدر المختار للحصکفی الحنفی :

أوأنا أطلق نفیس لم یقع لأنہ وعد (الدر المختار علی هامش رد المحتار باب تفویض  الطلاق ج: ۲ ص: ۶۵۷۔ط۔س۔ج۳ص۳۱۹.

 وھکذا صرح فی العالمگیریۃ بأنہ لا یقع الطلاق بأطلقک لأ نہ وعد.)العالمگیریة مصری کتاب الطلاق ۱ / ۳۸۴)

وفی الدرّ المختار وردّ المحتار:

"(ما لم يوضع له)  أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.

وفی  الفتاوى الهندية (1 / 376):

"ولو قال لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع، كذا في العتابية."

قال فی الاختيار لتعليل المختار :

"وكنايات الطلاق لا يقع بها إلا بنية أو بدلالة الحال، ويقع بائناً إلا اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة فيقع بها واحدة رجعية.

وألفاظ البائن قوله: أنت بائن، بتة، بتلة، حرام، حبلك على غاربك، خلية، برية، الحقي بأهلك، وهبتك لأهلك، سرحتك، فارقتك، أمرك بيدك، تقنعي، استتري، أنت حرة، اغربي، اخرجي، ابتغي الأزواج؛ ويصح فيها نية الواحدة والثلاث، ولو نوى الثنتين فواحدة"۔(ج 1 / ص 35)

وفی الشامیة:

والمرأۃ کالقاضی اذا سمعتہ او اخبرھا عدل لا یحل لھاتمکینہ‘ والفتویٰ علی انہ ‘ لیس لھا قتلہ ولا تقتل نفسھا بل تفدی نفسھا  بمال او تھرب کما انہ‘ لیس لہ قتلھا اذا حرمت  علیہ وکلما ہرب رد تہ بالسحر ، وفی البزازیۃ عن الا وزجندی انھا ترفع الا مر للقاضی فان حلف ولا بینۃ لھا فالا ثم علیہ اھ قلت اذا لم تقدر علی الفداء اوالھرب والا علی منعہ عنھا فلا ینافی ما قبلہ (شامی ص ۵۹۴ ج۱ باب الصریح)

  وفی البحرائق

 والمرأۃ کالقضی اذ سمعۃ اواخبرھا عدل لا یحل لھا یمکینہ ھکٓذا قتصر الشارحون وذکر فی البزازیۃ وذکر الا وزجندی انھا ء ر فع الا مرالی القاضی فان لم یکن لھا بینۃ تحلفۃ فان حلف فالاثم علیہ اھ ولا فرق فی البائن بین الواحدۃ والثلاث ا ھ وھل لھا ان تقتلہ اذ ارادجماعھا بعد علمھا بالبینونۃ فیہ قولان والفتوی انہ لیس لھا ان تقسم … الی قولہ … وعلیھا ان تفدی  نفسھا بمال اوتھرب … الخ (البحرالرائق ص ۲۵۷ ج۳  باب الطلاق) فقط واﷲاعلم بالصواب ۔

ونصابھا ای الشھادۃ لغیر من الحقوق الخ کنکاح وطلاق رجلان او رجل و امرائتان (الدرا لمختار علی ہامش ردالمحتار کتاب الشھادۃ  ج ۴ ص ۵۱۵۔ط۔س۔ج۵ص۴۶۵) ظفیر۔(۳)ونصابھا لغیرھا من الحقوق الخ کنکاح وطلاق رجلان اورجل وامرأتان (الدر المختار علی ہامش ردالمحتار کتاب الشھادۃ ج ۴ ص ۵۱۵۔ط۔س۔ج۵ص۴۶۵)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

08/05/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب