85400 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
ہم کل چھ بہن بھائی ہیں،دو بھائی اور چار بہنیں،والدین کا انتقال ہوچکا ہے،سب سے چھوٹی بہن کابھی انتقال ہوچکا ہے،ابھی جس بہن کی میراث کے حوالے سے یہ سوال ہے، اس کا انتقال 2020 میں ہوا ہے،یہ بہن غیر شادی شدہ تھی،والد کی جائیداد میں سے گھر اس بڑی بہن کے نام ہے،جس میں وہ چھوٹے بھائی کے ساتھ انتقال سے پہلے تک مقیم تھی،اس کے علاوہ ایک پلاٹ ہے جس میں ہم سب بہن بھائیوں کا متفرق حصہ ہے اور سونے کا زیور ہے۔
انتقال کے کچھ وقت بعد ہی بہن کی وصیت سامنے آئی،جس میں گھر کا حصہ اس نے بھائیوں کو دیا ہے،جبکہ پلاٹ کا حصہ مجھے دیا ہے،زیور زیادہ تر میری بڑی بیٹی کو دیا ہے اور بقیہ خاندان کے دیگر افراد،یعنی دیگر بھانجوں،بھانجیوں،بھتیجوں،بھتیجیوں اور بھابھیوں کو دیا ہے،یہ زیور اب تک چھوٹے بھائی کے پاس موجود ہے،سوال یہ ہے کہ چونکہ کسی کو بھی اس بات پر شک نہیں ہے کہ وصیت مرحومہ نے پورے ہوش وحواس میں خود لکھی ہے،تو کیا اس وصیت پر عمل کیا جائے گا یا نہیں؟اگر وصیت پر عمل نہیں ہوگا تو مال کی تقسیم کس طرح کی جائے گی؟
تنقیح: واضح رہے کہ جس بہن کے ترکہ اور وصیت سے متعلق سوال ہے اس سے پہلے ایک بہن کے انتقال ہوچکا تھا،یعنی اس بہن کے انتقال کے وقت ورثا میں دو بھائی اور دو بہنیں زندہ تھیں،والدین کا انتقال بھی ہوچکا تھا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرحومہ نے اپنے بہن بھائیوں کے حق میں جو وصیت کی ہے وہ شرعا معتبر نہیں،کیونکہ ورثا کے حق میں شرعا وصیت جائز نہیں،تاہم بہن بھائیوں کے علاوہ دیگر رشتہ داروں (بھانجے،بھانجیوں،بھتیجے،بھتیجیوں اور بھابھیوں)کے حق میں انہوں نے جو وصیت کی ہے وہ شرعا معتبر ہے، ورثا کے ذمے ان کے ترکہ(یعنی سونا،چاندی،نقدی،جائیداد یا اس کے علاوہ جو بھی چھوٹا بڑا سامان روزمرہ استعمال کی اشیاء سمیت انہوں نے اپنی ملک میں چھوڑا ہے وہ سب ان کا ترکہ ہے( کے تہائی حصے تک ان کی وصیت کے مطابق عمل کرنا لازم ہے،تہائی مال سے زائد وصیت پر عمل کرنا ورثا کی صوابدید پر ہے،چاہیں تو عمل کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔
تہائی مال یا ورثا کی صوابدید کے مطابق اس سے زائد میں مرحومہ کی وصیت کے مطابق عمل کرنے کے بعد جو بچے گا اس کی تقسیم درج ذیل طریقے سے ہوگی:
ٕنمبرشمار |
ٕوارث |
عددی حصہ |
فیصدی حصہ |
1 |
ہربھائی |
2/6 |
33.333% |
2 |
ہربہن |
1/6 |
16.666% |
تاہم اگر تمام ورثا عاقل بالغ ہوں اور وہ مرحومہ کی وصیت کے عین مطابق ان کے ترکہ کی تقسیم پر بخوشی آمادہ ہوں تو پھر ان کی وصیت کے مطابق تقسیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
حوالہ جات
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" (7/ 337):
"(ومنها) أن لا يكون وارث الموصي وقت موت الموصي، فإن كان لا تصح الوصية لما روي عن أبي قلابة - رضي الله عنه - عن رسولﷲ - صلى ﷲعليه وسلم - أنه قال «إن ﷲتبارك وتعالى أعطى كل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث» وفي هذا حكاية، وهي ما حكي أن سليمان بن الأعمش - رحمه ﷲ تعالى - كان مريضا، فعاده أبو حنيفة – رحمہ ﷲ - فوجده يوصي لابنيه، فقال أبو حنيفة: - رحمہ ﷲ- إن هذا لا يجوز، فقال: ولم يا أبا حنيفة ؟فقال: لأنك رويت لنا أن رسولﷲ – صلىﷲ عليه وسلم - قال: «لا وصية لوارث» فقال سليمان – رحمهﷲ -: يا معشر الفقهاء أنتم الأطباء ونحن الصيادلة".
"رد المحتار" (28/ 475):
"( إلا بإجازة ورثته ) لقوله عليه الصلاة والسلام { لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة } يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث وسنحققه ( وهم كبار ) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
08/جمادی الاولی1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |