03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیٹی کے نام کئے گئے پلاٹوں کی وراثت کا حکم
85399میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

اس کے علاوہ کئی پلاٹ تھے جن میں زیادہ تر میرے(سائلہ کے) نام تھے،میں سب سے بڑی بیٹی ہوں،ان پلاٹوں کے حوالے سے والد صاحب نے ہمیں بٹھاکر کوئی بات نہیں کی تھی،جبکہ بھائیوں کا کہنا ہے کہ ان سے بات کی تھی جس کے مطابق پلاٹوں میں بھی سب کا حصہ ہے،سوال یہ ہے کہ ان کا حساب شرعا کس طرح ہونا چاہیے؟

واضح رہے کہ میں شادی شدہ ہوں،میری چھوٹی دو بہنوں کا انتقال ہوچکا ہے،جن میں ایک شادی شدہ تھی اور اس کی ایک شادی شدہ بیٹی ہے،دونوں بہنوں  کا انتقال والد صاحب کے انتقال کے سالوں بعد ہوا،اب ایک بہن جو کہ غیر شادی شدہ ہے وہ والد صاحب کے گھر میں ایک بھائی کے ساتھ مقیم ہے۔

تنقیح:فون پر وضاحت سے معلوم ہوا کہ یہ  سارے پلاٹ والد نے تملیک کی نیت سے بیٹی کے نام نہیں کئے تھے،بلکہ ٹیکس وغیرہ سے بچنے کے لئے اس کے نام کروائے تھے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ ان پلاٹوں کو مرحوم والد نے تملیک کی نیت سے آپ کے نام نہیں کروایا تھا،بلکہ صرف انتظامی سہولت کے لئے ایسا کیا تھا،اس لئے یہ سارے پلاٹ بدستور والد صاحب کی ملکیت رہے اور ان کی وفات کے بعد ان کے ترکہ کا حصہ تھے،جن میں ان کی وفات کے وقت زندہ تمام ورثا کا حق تھا،لہذا ان پلاٹوں کو والد کی وفات کے وقت موجود تمام ورثا میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہے اور جن ورثا کا انتقال ہوچکا ہے ان کا حصہ ان کی وفات کے موجود ورثا کو دیا جائے گا۔

حوالہ جات

سيتضح".

الفتاوى الهندية (34/ 281)

"وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع.....

ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب ولا يكون متصلا ولا مشغولا بغير الموهوب حتى لو وهب أرضا فيها زرع للواهب دون الزرع ، أو عكسه أو نخلا فيها ثمرة للواهب معلقة به دون الثمرة ، أو عكسه لا تجوز ، وكذا لو وهب دارا أو ظرفا فيها متاع للواهب ، كذا في النهاية" .

"فقہ البیوع" (1/ 226):

"وماذکرنا من حکم التلجئة یقاربہ ما یسمی فی القوانین الوضعیة عقودا صوریة...

وھی ان تشتری ارض باسم غیر المشتری الحقیقی وتسجل الارض باسمہ فی الجھات الرسمیة وذلک لاغراض ضریبیة او لاغراض اخری ولکن المشتری الحقیقی ھو الذی دفع ثمنہ.....

وکذلک القانون الوضعی فی بلادنا یعترف بان المشتری الحقیقی ھو الذی یدفع الثمن اما الذی سجل العقد باسمہ صورة،فانہ یعتبر امینا للمالک الحقیقی ووکیلا لہ لاتخاذ الاجراءات القانونیة".

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/جمادی الاولی1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب